عالمی نقطہ نظر50

کیا یورپ زوال پذیر ہو رہا ہے ؟

1105524
عالمی نقطہ نظر50

 گزشتہ کئی ہفتوں سے پیرس میں زرد صدرتی تحریک نے  ادھم مچا  رکھا ہے جس میں لوٹ مار  ، نذر آتش ، اور پر تشدد مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے  جس میں متعدد گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔

   یورپ کی اس موجودہ صورت حال   کے پس پردہ  کیا عوامل ہیں   جس کا    تعلق در حقیقت  دوسری جنگ عظیم  سے ملتا نظر آتا ہے  البتہ  آج کے  اس  دور میں  ہجرت، غیر ملکی دشمنی اور مذہبی بنیادوں پر صیحونیت و اسلام مخالفت اس کے  اہم عوامل  شمار ہو سکتے ہیں۔ اصل میں   ہجرت  اس کا مسئلہ نہیں بلکہ یورپ   کی اپنی پالیسیاں ہیں  جو کہ  مسلم دشمنی اور نسل پرستی  کو ہوا دے رہی ہیں۔

  فرانس  کے  واقعات کا جہاں   تعلق ہے تو  مہاجرین  مخالفت،نفرت اور امتیازی سلوک  اس کے بنیادی اسباب  کے طور پر نظر نہیں آتے  ،زرد صدری تحریک  کے مطالبات   کچھ اور ہیں جو کہ    اس  عالمی اتار چڑھاو   میں  اقتصادی کساد بازاری   کے ہاتھوں ستائے ہوئے  ہیں اور اپنے  معیار زندگی کو مزید بہتر بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

 استنبول کے گیزی پارک کے واقعات    پر دنیا بھر کے میڈیا نے جو شور مچایا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں  جس میں ترکی اوراس کی پولیس کو حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کاچیمپیئن دکھانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن پیرس کے واقعات پر عالمی میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو  جہاں پولیس نے  اسکول کو طلبہ کو بھی نہیں بخشا اور ان کی خاطر تواضع  لاٹھیوں  اور  ٹُھڈوں سے   کی ۔

زرد صدری تحریک کے کسی پارٹی منشور کی طرح 42 مطالبات ہیں  جس میں سے  صرف ایک ہی قبول کی گئی ہے جو کہ ایندھن کی قیمت میں کمی تھا۔ اس کے علاوہ ان کے مطالبات میں  معیار  زندگی بہتر بنانا، ٹیکسوں میں رعائیت، مہاجرین   کے خلاف بہتر پالیسیاں  مرتب دینا،انتخابی قوانین میں ترمیم  اور دیگر سیاسی   و سماجی    مطالبات شامل ہیں۔

 بلا شبہ ، یہ ایک جمہوری حق ہے      جہاں اظہار آزادی  کا مکمل اختیار ہوتا ہے   جس کےلیے عوام   پر امن احتجاج کا راستہ  اپنا سکتےہیں    جس کے خلاف  پولیس اور دیگر اداروں کی سختی  ایک جرم  ہوتا ہے ۔

 جمہوری ممالک میں  حکومتوں کا زوال سڑکوں پر  نہیں   بلکہ   انتخابات  کے نتیجے میں  ممکن ہوتا ہے ۔

 اس کے جواب میں   اگر مطالبات کی سنوائی  کےلیے  سڑکوں پر  ہنگامہ آرائی،توڑ پھوڑ ،  تشدد  اور لوٹ مار کا سہارا لیا جائے تو یہ  صرف انتشار اور طوائف الملوکی      ہی پیدا کرے گا۔

 فرانس  کی تاریخ   انسانیت سوز مظالم سے بھری پڑی ہے   جہاں  آزادی ،مساوات،اخوت جیسے  نظریات     کی دھجیاں انقلاب فرانس کے نام  پر اڑائی گئیں لگتا ہے کہ   یہ مظاہرے بھی اسی انقلاب کا ایک حصہ  ہیں۔

 فرانسیسی  روشن خیالی   کا مفہوم  درحقیت انسانیت  کو نسل پرستی    کی زنجیروں میں مقید کرتےہوئے   اپنے نظریات  کو جبراً   دوسروں پر لاگو کرنے کا نام ہے ۔

  تاریخ انسانی   کی سب سے خونی جنگوں ، لاتعداد اموات اور  دینی،روایتی ،اخلاقی پستی کے تناظر میں  اس  نام نہاد روشن خیال ذہنیت    نے  کیا گل کھلایا یہ سب کو  معلوم ہے ۔ آج کی سائنس  انسانی بیضے کی ساخت  سے  کھیل کرمصنوعی طور پر  انسان بنانے کی تیاریوں میں ہے جو کہ باعث تشویش  ہے   ج اور جو مصنوعی ذہانت کا حامل بھی  ہو سکتا ہے۔

سڑکوں  پر ہنگامہ آرائی  اور انقلابی طرز  فکر کے راستے   اقتدار   حاصل کرنا   تباہی کا سبب بن سکتا ہے  جس کی مثال  انقلاب فرانس کے دوران  ایڈمنڈ برک کی تصنیف   "انقلاب فرانس اور نظریات" میں    موجود ہے ۔

 فرانس کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کی لپیٹ میں   دیگر ممالک بھی آئیں  گے  بالخصوص مغربی ممالک   کافی نقصان  اٹھانے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اگر ایسی صورت حال  ترکی یا غیر مغربی  کسی ملک میں ہوتی  تو وہاں  کا ذرائع ابلاغ اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر  مظاہرین کو حق  بجانب قرار دیتا اور حکومت اور  حفاظتی اداروں  کو  ذلیل کرنا اپنا فرض سمجھتا ۔

 یاد رہے کہ  فرانس یا مغرب  ہمارے لیے  مشعل راہ نہیں   ہیں کیونکہ   ہماری روایات اس بات کی غماز ہیں  کہ ہمیں   مغرب کے مقابلے میں  منصفانہ  طرز عمل اور انسان دوست نظریات   کا  ساتھ دینا زیب دیتا ہے ۔

 یہ جائزہ آپ کی خدمت میں انقرہ کی یلدرم با یزید یونیورسٹی کے  شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔

 

 

 

 



متعللقہ خبریں