عالمی نقطہ نظر42

جدید تعلیمی پالیسی اور ترک نظام تعلیم

1070607
عالمی نقطہ نظر42

وزیر تعلیم  ضیا ٫سلجوک نے اپنے  منصب کے آغاز پر ایک نئی تعلیمی  حکمت عملی  کی ضرورت  کا ادراک  کیا اور کہا   کہ یہ مختصر وقت میں تیار کی جائے گی.

یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی مسائل ، بیوروکریسی  اور سیاست سے متعلق حکمت عملی  اس کی اہم  وجہ ہے ۔عوامی یا نجی ادارے میں حکمت عملی کے لئے تلاش کے ساتھ شروع کرنے کے لئے یہ بہت صحیح آغاز ہے.اصطلاح میں یہ واضح تھا کہ ہماری قومی تعلیم، جو تکنیکی ضروریات اور فوری مسائل پر بہت توجہ مرکوز کرتی تھی، نئی حکمت عملی کی ضرورت تھی. دوسری طرف، ہماری مشکلات کا ایک اہم حصہ غلط حکمت عملی سے تعلق رکھتا ہے  جبکہ ،تعلیم کے لئے ایک حکمت عملی کی تلاش انتہائی اہم ہے، اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ حکمت عملی آگے بڑھے ۔تقریباً 200 سال سے   جاری حکمت عملی  ایک غلط  ڈگر پر محو سفرہے جسے اب تبدیل کرنا   اشد ضروری ہے ۔

 شعبہ  تعلیم کی حکمت عملی  مرتب دینے میں سب سے پہلے  یہ ضروری ہے  ملک و قوم کے  مستقبل کو بہتر اور مفید  بنانے کے لئے  ہمیں انسانی نوعیت کا جواب   تلاش کرنا ہوگا۔

 آج  ضرورت اس بات کی ہے  کہ  انسانی  وقار  ایک کثیر الاقدارہے   جو کہ عالمی سطح پر   اپنی شناخت کرواتا ہے۔

انسانی  وقار  کے بعدمخصوص فلسفہ یا بنیادی اصول متعارف کرانا ایک  تعلیمی  حکمت عملی  کا نام  ہے. ایک تربیتی جو انصاف کے بارے میں شعور دیتا ہے. یہ  یکساں نہیں  بلکہ  افراد  کی صلاحیت کے مطابق یہ متنوع تعلیم ہے. یہ ایک ایسا  شعبہ  ہے جو زندگی کے ساتھ وابستہ ہے.

انسانی  اقدار  اور بنیادی اصولوں کے بعد آج کی شرائط کے مطابق  تجزیے کی ضرورت ہے.

 ملک میں مختلف اداروں، سول سوسائٹی، اکیڈمی کے ساتھ، نجی شعبے کے ساتھ تجزیہ کی ضرورت ہے، ترکی ہمارے خطے کے مستقبل پر غور کر رہا ہے ۔

ضروریا تی  تجزیہ کے مطابق، تربیتی عمل میں ضروری علاقوں اور قابلیت کا تعین کیا جانا چاہئے. ترکی جیسے ملک   میں انتہائی محنتی افراد  ہیں  جنہیں  پیشہ وارانہ اور فنی تربیت کے حامل  تعلیمی اداروں کی  ضرورت ہے    اس تجزیہ کی ضرورت ایک بار نہیں بلکہ  مسلسل طور پر ترکی کو  درکار   ہے  جس میں   وقتی ضروریات کے مطابق نظر ثانی    ناگزیر ہو سکتا ہے ۔

سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ تعلیم مکمل طور پر عوام کی طرف سے کی جائے گی یا عوام کو محض  ہدایت نگرانی، اور معاون کردار ادا کرنے میں مدد دے گی .

 آج کی دنیا میں اب افراد  اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں مزید کہنا چاہتے ہیں.

 سرد جنگ کے دور میں  جب ریاست نے نصاب کو عوام کو پیش کیاجاتا تھا تو  اس کو شہریوں کی ترجیحات اور ضروریات کے بارے میں سوچے  بغیر لاگو کیا جاتا تھا ۔

آج کے دور میں   انسان  اپنے بچوں کے مذہب، زبان اور ثقافت کے لئے زیادہ حساس تعلیم کی تلاش کر رہے ہیں۔

تعلیمی نظام کو خاندانوں کی ان کثیر پسند ترجیحات اور منڈیوں  کی بہت مختلف ضروریات کو جواب دینے کے قابل ہونا چاہئےلہذا ،  تعلیمی  حکمت عملی کی تیاری بھی آزادی، انسانی حقوق اور منڈیوں  کی ضروریات کا ایک سوال پیدا کرتا ہے. خاص طور پر ایسا  تعلیمی نظام مسلم، عیسائی، یہودیوں یا زیادہ  سیکولر یا زیادہ لبرل، سوشلسٹ، قدامت پسند یا مختلف تعلیمی مطالبات کا جواب دینے کے قابل ہوسکتے ہیں. عام طور پر دستیاب تعلیم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ خاندانوں کی مختلف ترجیحات اور  بازاروں  کی  نوعیت  کو تبدیل کرے   البتہ اتنا اہم ہےکہ عوام کی طرف سے سماعت، نگرانی اور ہدایت فی الحال، تعلیم کو سرکاری و  نجی شعبے  میں وسعت دینے کے رجحان کو تیز کیا جانا چاہئے.

 واضح رہے کہ ہماری تہذیب ایک  ایسی    تعلیمی  پس منظر سے تعلق  رکھتی ہے  جس نے  ابن سینا، غزالی، مولانا رومی ، خوارزمی، اور کوکو علی جیسے بہت سے علماء اور دانشور پیدا کیے ۔

دوسری طرف ،ترکی  کی کثیر  آبادی نوجوان ہے  لیکن  آبادی میں اضافہ کی شرح دیکھتےہوئے یہ کہا جا سکتاہے کہ  اساتذہ  کی تقرری ،تعلیمی اداروں کی  تعمیر اور ان سے وابستہ   تمام  اخراجات   قومی خزانے کے ساتھ ساتھ نجی شعبےکی بھی ذمے داری بننی چاہیئے۔

ہمارے موجودہ تعلیم کے نظام کی بنیادی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ یہ نوجوان افراد یونیورسٹی اور پھر پیشہ ورانہ   تعلیمی اداروں میں  اپنا سر کھپاتے ہیں  جبکہ ملک  میں    پیشہ وارانہ اداروں کی تعداد  بہت محدود ہے لہذا  اس وجہ سے ہماری تعلیمی  حکمت عملی ایک ایسے نظام پر مبنی ہونی چاہئے جو ہمارے طالب علموں کو  ان کی صلاحیتوں کے  مطابق رہنمائی دے  جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی نمایاں ہوتی رہے ۔

 

ترکی  اس وقت  تیزی سے بین الاقوامی طلبہ  کی توجہ کا  مرکز بنتا جا رہا ہے.

ہماری   اعلی  کونسل برائے   تعلیم کا کہنا ہے کہ اس وقت ترکی میں 1 لاکھ 43 ہزار غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہیں   جس میں مزید اضافے  کا امکان  ہے ۔

بین الاقوامی  طلبہ   کو  ترک جامعات کی  طرف متوجہ کرنے کے لئے تعلیمی حکمت  عملی کو  جدید تقاضوں اور  اصولوں کے مطابق  استوار کرنا ہوگا۔

  برقی تجارت کے  اہم ناموں میں شمار  جیک ما  کا کہنا ہے کہ   تعلیم آج کے دور کا اہم مسئلہ ہے ، اگر ہم نے   طرز تعلیم نہ بدلا  تو  یہ  ایک  ناسور بن سکتا ہے  کیونکہ  دو سو سال پہلے کو نظام متعارف کروایا گیا   وہ تاحال  موجود ہے جس سے ہم اپنے بچوں کو ماسوائے   صرف کولہو کا  بیل بنا سکتے  ہیں ۔

یاد رکھیے کہ آج کی نسل ذہین ہے  جو کہ  اپنی ثقافت، عقل و فراست، اعتقاد،  غیر جانبدارانہ  طرز فکر  اور یکساں  مفادات   کا ادراک بہتر طورپر کر سکتی  ہے ۔

  یہ جائزہ آپ کی خدمت میں  انقرہ کی یلدرم بایزید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔

 

 



متعللقہ خبریں