عالمی نقطہ نظر39

حصول تعلیم اور عالمی اصول

1057296
عالمی نقطہ نظر39

 

Küresel Perspektif  / 39

             Eğitimin Evrensel İlkeleri 1

 

 

Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL

 

 

یہ دنیا ایک انسانی  معاشرہ ہے  جہاں ہم سب  ایک  خاندان کی طرح بستے ہیں۔ مختلف ممالک   ہماری بستیاں     اور  تاریخ ہمارا مشترکہ ثقافتی ورثہ بنی ۔  کسی بھی قدرتی آفت کے سامنے  تمام مذہبی ،ثقافتی نسلی اور لسانی امتیاز سے بالاتر ہو کر ہم انسان  ایک دوسرے کی مدد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں دور حاضر  میں   مختلف ممالک میں بسے ہم انسان ایک دوسرے    سے معلومات ،ثقافتی اقدار  اور  طرز زندگی کے اصول بھی منتقل کرتےہیں۔بعض اوقات ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ  ہمارے اجداد    کی طرز زندگی  یا موجودہ دور  ہمارے لییے مشعل راہ بنتا ہے جس کا جواب ہمیں خود ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔

   آج  کا موضوع تعلیم  ہے   جس سے بہرہ آور انسانی زندگی    کا رخ جیسا چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ ایک  جاہل  انسان  خود کش حملہ آور بن کر  معصوم زندگیاں چھین سکتا ہے مگر اس کے برعکس  تعلیم کا زیور انسان کو مہذب  بناتا ہے اور  ایک دوسرے انسان کی زندگی سہل بنانے میں معاون  ثابت ہو سکتا ہے۔

لہذا   تعلیم ایک عالمی  اصول ہے  جسے پوری دنیا اہمیت دیتی ہے لیکن  آج کا تعلیمی نظام کس سمت کی جانب رواں ہے  بلا شبہ دنیا کے بعض ممالک میں یہ نظام  اعلی معیار رکھتا ہے  لیکن بیشتر ممالک میں صورت حال اس شعبے میں  تسلی بخش نہیں  ہے ۔

مغرب    کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہاں  تعلیمی اداروں میں  قتل و غارت گری    دیگر دنیا سے 2 گنا زیادہ نظر آتی ہے  حتی امریکہ  میں   صورت حال   یہ ہے کہ وہاں  زیادہ تر قتل کی وارداتوں میں   ہم جماعت پائے جاتے ہیں جس میں جنسی بے راہ روی ،شراب نوشی ،قمار بازی اور منشیات کا استعمال  اور  دیگر اخلاقی بے راہ رویوں  کا عمل دخل نظر آتا ہے ۔

مشرق میں بھی برائیوں   کا سلسلہ کچھ کم نہیں ہے  کہ جہاں  جرائم  کی شرح تو کم ہے لیکن نظام تعلیم ایسا ہے جو کہ انسان کو   دوسروں کی سوچ   پر چلنے    کی  ترغیب  اور انہیں مرعوب کرنے  کا سبق  دیتا ہے  ۔

 تعلیم ایک  ایسا ذریعہ ہے  جو کہ  دینی،لسانی ،نظریاتی  اور  نسلی امتیاز سے بالا تر ہمیں   ایک انسانی احترام      کا سلیقہ  اور ترقی  و گر سکھتا ہے ۔ اگر اس میں کمی بیشی ہو جائے تو  یہ دنیا   بربادی    کا گڑھ بن جائے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی نظام کو بہتر  کرتےہوئےانسانی  معاشرے ،  ان کی ترقی  اور خوشحالی   میں کیسے اضافہ کیا جائے۔ انہی اصولوں  کو مد نظر رکھتےہوئے ہمیں  اپنا تعلیمی نظام بہتر بنانا ہوگا۔

تعلیم کا مقصد  انسانی حیات کے فلسفے کو سمجھنے کا نام ہے ۔  اگر کسی معاشرے میں    انسان کا احترام اولین ترجیح ہو اور وہاں  حق تلفیوں کا برائے نام  دور دورہ رہے تو ایسا  معاشرہ تعلیمی  لحاظ سے   قابل قدر  سمجھا جاتا ہے اور یہ بہتر تعلیمی نظام سے ممکن ہے ۔ تعلیم    کی تعریف وہ نہیں جو ہم  درس و تدریس   سے وابستہ  اداروں میں حاصل کرتے ہیں بلکہ  یہ صرف ایک ذریعہ بنتے ہیں۔

 زندگی کی  دوڑ میں ہمیں کافی  مسائل نے گھیر رکھا ہے  جن میں سے  اگر چاہیں تو  چند کو  تعلیم کے عالمی  اور بنیادی اصول اپنا کر حل کر سکتے ہیں۔

 ان اصولوں میں ہمیں جدیداور منصفانہ    تقاضوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔حضرت عمر کا قول ہے کہ   انصاف ریاست   کی بنیاد ہے  جبکہ جرمن مفکر  کانٹ کے مطابق  نا انصافی  انسانی زندگی   کی اقدار کا خاتمہ ہوگا ۔ انصاف کے بنیادی قواعد     سے  ہر بشر باعلم ہے  لہذا   مختلف ادیان اور عقائد کی رو سے   قتل   و غارت گری اور   انسانیت کے خلاف جرائم   کی سزا مقرر   کی گئی ہے ۔  تعلیمی شعبے کا  بھی یہی معیار ہونا چاہیئے کہ ہمیں   تمام  طلبہ کو  اس بات سے باور کروانے کی ضرورت ہے کہ  غیر قانونی طریقوں سے بغیر محنت کیے حاصل آمدنی    نا جائز ہے ۔ انصاف    کی  ضد ظلم  کے زمرے میں آتی ہے  لہذا  ذرا سوچئے کہ اگر ہر کوئی   ہاتھ پر ہاتھ دھرے محنت کیے بغیر  آمدنی کا ذریعہ تلاش  کرے تو کیا ہوگا؟ظاہر ہے کہ دنیا  طوائف الملوکی  کا شکار ہو جائے گی  ۔یاد رکھیے  کہ  تعلیمی  ادوار میں    معلومات ،مشاہدات  اور تجربے کی کمی  آپ کبھی بھی پوری کر سکتےہیں مگر  نا جائز طریقے سے  دولت    کمانے کا ارادہ   اگر  جڑ پکڑ لے تو عمر بھر   اسے بھولنا مشکل ہو سکتاہے ۔

  ایمانداری  کی حس  دراصل  زمانہ طالب علمی  میں    معلومات دینے سے نہیں  بلکہ  تعلیمی نظام  اور اساتذہ   کے رویئے  سے  پروان چڑھتی ہے ۔  نتیجتاً ایمانداری  کا جذبہ  کتابی نہیں بلکہ   احساس،شعور  اور  عقیدے کی بنیاد پر  انسان میں سرایت کرتا ہے جو کہ ہمیں در پیش مسائل سے لڑنے کی ہمت  اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا بھی حوصلہ دیتا ہے ۔

 تعلیم کا اصل مقصد نیک نیت،خوددار اور مثبت طرز زندگی کے حامل افراد کی تربیت کا نام  ہے جبکہ دوسری جانب ہمیں ایسا نوجوان طبقہ بھی نظر آتا ہے جو کہ ساری سہولیات کے باوجود زندگی  میں ہمیشہ نا شکری ،بد نیتی،منفی طرز فکر  اور عدم اعتماد   کا دامن تھامے رکھتا ہے ۔ انسان  اگر اپنی سوچ میں  تبدیلی لائے اور زندگی کے ہر پہلو کو مثبت انداز میں دیکھے  تو  اس میں برا کیا ہے ۔ اچھا انسان  مختلف معاشروں   اور مذاہب میں  مختلف ہو سکتا ہے۔ اس دنیا میں  برا انسان بننے میں آج کل جتنی آسانی ہے  اس کے بر خلاف ایک اچھے انسان   کی پرورش    اس بگڑتی دنیا  میں قابل قدر خدمت کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔

 زندگی کو مثبت طرز زندگی  اور نیکی کا راستہ اپنائیے    تو ہمارا معاشرہ  اور یہ دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔

 یہ جائزہ آپ کی خدمت میں  انقرہ کی یلدرم بایزید یونیورسٹی کے  شعبہ سیاسی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔

 



متعللقہ خبریں