عالمی نقطہ نظر14

کرد قوم اور مذہب اسلام میں ربط

943512
عالمی نقطہ نظر14

 

Küresel Perspektif  / 14

  _?Kürtler İslam’ın Nesi Oluyor

Prof. Dr. Kudret BÜLBÜL

 

 

ابراہام لنکن  نے ایک جگہ کہا تھا کہ  ہر کوئی بعض اوقات  جبکہ بعض دائما  مگر ہو کوئی  دائما   کسی کو دھوکہ دینے کے محتمل نہیں ہو سکتے۔

مغربی ذرائع ابلاغ  پی کےکے اور پی وائی ڈی   دہشتگرد تنظیم کو  جنگ آزادی کے مجاہدوں سے تعبیر کر رہا ے کیونکہ ان کے مطابق ،یہ تنظیمیں  تمام کردوں کی نمائندہ ہیں اور جو بھی ان کے خلاف جنگ کر رہا ہے وہ در حقیقت کرد قوم     کا صفایا کرنے کے درپے ہیں۔  یہی میڈیا  عفرین میں شروع کردہ  آپریشن کو  اس کی کڑی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے  جس کے استعمال میں بعض اوقات الجزیرہ جیسے چینلز بھی شامل  ہو جاتے ہیں۔

 اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو   پی کےکے وہ تنظیم ہے کہ جس کا سب سے  زیادہ نقصان   کردوں کو پہنچا   ترکی میں صرف اس تنظی کی وجہ سے  40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت کردوں کی تھی ۔ پی کےکے  مارکسٹ  یا   لنینسٹ   نظریات کے بر خلاف  دہشت گردی کے بہانے  کردوں کی نسلی صفائی میں  مصروف ہے  جس کی وجہ سے مشرقی  اور جنوب مشرقی ترکی سے  لوگوں نے  مغربی ترک شہروں کی جانب کوچ بالخصوص استنبول آنا شروع کر دیا ۔ جو کہ اس وقت  کرد آبادی    کا حامل اکثریتی شہر بن چکا ہے۔ باور رہے کہ  پی کےکے کی مذموم دہشتگرد کاروائیوں   سے راہ فرار اختیار کرنے  والوں کی اکثریت شام اور عراق نہیں بلکہ استنبول اور ترک اکثریتی علاقوں کی جانب  نقل مکانی کر گئی ۔

 دور حاضر میں   پی کےکے کی ذیلی شاخ پی وائی ڈی  اسی قسم کے حربے شام میں استعمال کر رہی ہے  جو کہ امریکی حمایت کے زیر سایہ  ترک سرحد سے ملحقہ  علاقے میں   دہشت گردوں   کی آماجگاہ بنانے  کی کوشش میں ہے ماضی میں  پی کی کے کی  طرح   یہ تنظیم بھی شام میں  عربوں اور ترکمینوں  کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کر رہی ہے جو کہ اس وقت ترکی میں  پناہ لیے ہوئے ہیں۔

 یہ ضرور ہے کہ   کرد برادری کے درمیان ایسے عناصر بھی ہیں  جو کہ ان تنظیموں کی جی حضوری میں مصروف ہیں  مگر   تنظیم  کی حمایت  اور اس  تحریک کو  تمام کردوں  کی نمائندہ قرار دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ   ہٹلر  کو پوری جرمن قوم یا موسولینی کو پوری اطالوی قوم کا نمائندہ قرار دینا لہذا یہاں  اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ  مسلسل کرد نواجونوں کو  ورغلا کر یہی سوال پوچھتا ہے کہ آخر اس دنیا میں کردوں کو اپنی ریاست  قائم کرنے  کا حق کیوں حاصل نہیں ہے؟ مگر یہ سوال نہیں ہ پوچھا جاتا کہ    امریکہ میں آخر کیوں  50 ریاستوں میں بسے مختلف  نوآبادیاتی نسلوں   نے آج تک  علیحدگی   کی تحریک   شروع  نہیں کی ۔  قابل توجہ  بات ہے کہ  مشرق وسطی میں موجود  آزادی کی تحریکوں  میں تو  اہل مغرب کافی دلچسپی لیتے ہیں مگر کاتالونیا  کی آزادی کی بات ہو تو  وہاں  ان کی حرکات منجمد ہو جاتی ہیں۔ جرمنی  دہشتگردوں     کی سرگرمیوں  پر  آنکھ بند کرنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے مگر کاتالان لیڈر کو اپنے ہی ملک میں گرفتار کرلیتا ہے۔

 مسئلہ در حقیقت ،ایک قوم یا ریاست قائم  کرنا نہیں بلکہ  تقسیم کرتےہوئے    اپنا طابع بنانا مغربی سیاست کا حصہ رہا ہے۔

اگر  یہ مسئلہ   ریاستوں یا شہروں  کے قیام کا ہوتا تو ہمارے اس خطے یعنی  مشرق وسطی  میں یہ تجربہ کافی پہلے کیا جاچکا ہے۔ صلیبی  ادوار کے دوران  اس خطے میں مختلف قسم   کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں  جبکہ ایشیائے کوچک  بھی مختلف قسم  کی ترک ریاستوں   میں منقسم تھا جبکہ ترک،عرب اور ترکمینوں نے بھی  اپنے اپنے علاقوں پر حاکمیت شروع کر رکھی تھی  جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  یہ مسلم ریاستیں  حملوں  کا شکار رہیں اور منتشر ہو گئیں۔ ایک صدی قبل  مغربی زیر اثر بعض عرب  قبائل  اسی راہ پر چل پڑے تھے جس کے بعد اب دنیا کے نقشے پر 23 عرب ریاستیں موجود ہیں اور اس بات  کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ   عراق،شام  اور دیگر خلیجی ریاستوں  کو کس طرح سےمنقسم کیا جائے   جو کہ اس خطےکی عوام کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔

اس ساری صورت حال کے باعث  کردوں  سمیت دیگر علاقائی عوام   میں اتحاد  بین الاقوام  کی ماضی سے زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

مغربی میڈیا  پی کےکے دہشت گرد تنظیم   کو ایک  سیکولر تنظیم تصور کرتاہے  جس کی تعریفوں میں بھی قصیدے پڑھنا اس کا معمول بن چکا ہے۔ مغرب اسلام اور دہشتگردوں میں تانا بانا بننے  میں مصروف ہے۔ جس کے بر عکس مغربی دنیا  سیکولرازم     کو مسائل  کا   نجات دہندہ  منوانے پر تلا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم دراصل  ان ممالک کے درمیان ہوئی جو کہ سیکولرازم نظریات کے حامی تھے  مگر یہ جنگ درحقیقت  سیکولر ازم  کی نہیں بلکہ   غاصبانہ قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے  کےلیے لڑی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا  پی کےکے   کی حمایت میں پیش پیش ہے  تاکہ اسے  وقت آنے پر اپنی کٹھ پتلی بنایا جا سکے ۔

صلاح الدین ایوبی

یاد رہے کہ" ماضی کی تلخیاں  درس آموز نہ بنیں  تو خود کو دہراتی ہیں کیونکہ آج کل کا   جبکہ گزرا کل آج  کا آئینہ دار ہوتا ہے" ۔  

 تاریخ بھر مشرقی وسطی  میں  بسی تینوں اقوام یعنی ترک عرب اور کرد  آپس میں اتفاق  و اتحاد سے رہے ہیں  جنہیں آپسی نفاق کے نتیجے میں  کافی بھاری جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ یہ وہی کرد ،عرب اور ترک  اقوام ہیں جنہوں نے  صلیبی قوتوں کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا ،سلطان صلاح الدین ایوبی   ایک کرد  سپہ سالار تھے جنہوں نے  القدس   کو فتح کرتے ہوئے مسلمانوں  پر ایک احسان کیا  اور علاقے کو امن و امان کا گہوارہ بنایا ۔ آج کی مغربی دنیا   کا منصوبہ بھی وہی ہے جو کہ  عصروں قبل    مشرق وسطی میں بسے  آرمینیوں اور مسیحیوں نے شروع کیا تھا  جس میں اسرائیلی ریاست  آج   اپنا کردار ادا کر رہی  ہے  اور خطے کا امن تہہ و بالا ہو چکا ہے لیکن   اب صورت حال یہ ہے کہ  چند  مسلم ممالک  اس جدید سامراجی دنیا  کے حملوں   کی پشت پناہی کرنے میں حتی اُن کی اشتعال انگیز پالیسیوں  کے پیادے  بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کرد عوام  مارکسسٹ یا لیننسٹ  تنظیم   کے کارندے بنیں   اور اس کےلیے     داعش کے خلاف  جنگ لڑنے پر  ان کی  پشت بھی تھپتھپا ر ہی  ہے ۔

لیکن  اس کا اصل مقصد مسلم اقوام میں  انتشار پھیلانا ہے۔ یہاں یہ کہنا ضرور ی ہوگا کہ  کردوں کی اکثریت اس ساری صورت حال سے آگاہ ہے  اور امن منصوبوں کے خلاف ہے اور  چاہتی ہے کہ  ترک،کرد اور عرب اقوام  اس علاقے میں ایک بار پھر صدیوں پرانی روایت کو دہرائیں اور دشمن قوتوں کے ان عزائم کو خاک میں ملاتےہوئے باہمی اتحاد  ویگانگت   بحال کریں ۔

 یہ جائزہ  آپ کی خدمت میں انقرہ کی یلدرم بایزید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم   کے پروفیسر ڈاکٹر  قدرت بلبل کے قلم سے پیش کیا گیا ۔



متعللقہ خبریں