ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ08

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ08

914477
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ08

رشین تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ  اور انقرہ یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے لیکچرار ڈاکٹر صالح یلماز کا   شام میں شروع کردہ شاخِ زیتون فوجی کاروائی کے بارے میں  جائزہ ۔۔۔

 یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کی طرف سے 20 جنوری 2018 کو عفرین میں شاخِ زیتون فوجی کاروائی شروع کرنے کے بعد شام میں طویل عرصے سے  بلواسطہ جنگ میں شریک ممالک  سامنے آنے لگے ہیں ۔  ان ممالک کے منظر عام پر آنے سے عفرین کاروائی   کے نتیجے میں   سوچی میں کیے گئے فیصلے اور شام میں سیاسی امن  کے قیام کی امیدیں  پیدا ہو گئی ہیں ۔

29 جنوری 2018 کو شام میں داعش کے خلاف جدوجہد کے خاتمے کے بعد ترکی اور ایران کی زیر قیادت شامی قومی ڈائیلاگ کانگریس منعقد ہوئی۔ اسد انتظامیہ کے حامی اور مخالف گروپوں کو ایک مقام پر جمع کرنے والی  اس دو روزہ کانگریس   میں شام کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ پر زور دیا گیا اور مخالفین کے وفود پر مشتمل کمیٹی   نے آئینی اصلاحاتی مسودہ  تیار کرنے کے لیے اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254  کے معاون ثابت ہونے  کا فیصلہ کیا ۔ دراصل 2012 میں شروع ہونے والے  لیکن ناکام رہنے والے جنیوا  امن مذاکرات کو نیا موقع فراہم کرنے والی سوچی کانگریس     امریکہ کو  میدان میں  لے آئی ہے   کیونکہ امریکہ  نے شام کی علاقائی سالمیت  کےامریکی مفادات کے لیے خطرہ بننے کی سوچ کیساتھ امداد فراہم کی جانے والی دہشت گرد تنظیم پی کے کے / پی وائے ڈی کو  ترکی اور روس کے خلاف آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے  کا فیصلہ کیا ۔

 کیا پی کے کے / پی وائے ڈی کو شام کی تقسیم کے  لیے استعمال  کیا جائے گا ؟

امریکہ نے عفرین کاروائی کے بعد دہشت گرد تنظیم پی کے کے / پی وائے ڈی کو صرف اپنےمقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ امریکہ جو 2015 میں روس کی طرف سے  شام  میں کاروائی شروع کرنے کے بعد  حاکمیت کو تقسیم کرنے پر مجبور ہوا تھا  پی وائے ڈی کے نام سے شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے طویل عرصے تک اس جغرافیے میں  قیام کا ارادہ رکھتا  تھا   لیکن ترکی کی طرف سے عفرین میں کاروائی اور شام کے شمالی علاقے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے اعلانات  کیوجہ سے اس کے تمام منصوبے الٹ پلٹ گئے ۔ وہ اس طرح کہ پی وائے ڈی کو استعمال کرتے ہوئے شام کے شمال اور عراق  کی سرحد سے شروع ہو کر گولان کی پہاڑیوں تک کے علاقے میں سلامتی کا علاقہ قا ئم کرنے کا ہدف رکھنے والے امریکہ کے منصوبے کٹھائی میں  پڑ  گئے  کیونکہ شام کے شمالی علاقے سے نکالے جانے والے پی کے کے / پی وائے ڈی کے دہشت گردوں کو راقہ اور دیر الزور لائن پر   رکھنا مشکل    ہو گیاتھا ۔  شام کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کا دفاع کرنے والے روس ا ور ترکی  امریکہ کی مدد سے اسرائیل کی طرف سے 40 کلومیٹر  سلامتی کا علاقہ قائم کرنے کا منصوبے کو  خطرے میں ڈال رہے تھے ۔ ان حالات میں سوچی عمل کو کسی نہ کسی طرح  ناکام بناتے ہوئے شام میں جھڑپوں کو بڑھانے کی ضرورت تھی ۔ اس منصوبے کو عملی   جامہ   پہنانے کے لیے روس کے مفادات کو خطرے میں ڈالنے والی نئی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ بعد میں روس کے طیارے کو گرایا گیا اوردیر الزور میں روسی زر خرید فوجیوں سمیت اسد قوتوں پر حملوں کے منظر کو افشاء کرتے ہوئے روس کو  کمزور دکھانے کی کوشش کی گئی ۔  ان سرگرمیوں کے جواب میں اسد قوتوں نے ایک اسرائیلی طیارے کو مار گرایا ۔

شام کا نیا توازن روس کو ترکی کی پی کے کے/پی وائے ڈی پالیسی کی حمایت پر  مجبور کر رہا ہے ۔

شام  میں ترکی کی عفرین کاروائی اور اسرائیلی طیارے کو مار گرانے کی بنا پر  نئے ایکٹرز چین ، اسرائیل، فرانس حتیٰ کہ برطانیہ جیسے ممالک کو شام میں مداخلت کرنے کا بہانہ مل گیا ۔  ترکی کی عفرین کاروائی کے بعد اس کاروائی کو فرات کے مشرق تک وسعت نہ دے سکنے سے ترکی  روس  کے اثرورسوخ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ۔ اگر روس نے ان  حالات میں ترکی کی پی کے کے / پی وائے ڈی پالیسی کی حمایت نہ کی اور صرف  تماشائی بنا رہا تو  طیارے کو مار گرانے کی اشتعال انگیزی جیسے نئے حملوں سے اسے  شام میں جھڑپوں میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ ان حالات میں پی کے کے / پی وائے ڈی کوروس، امریکہ اسرائیل اور چین کی طرف سے آلہ کار بنانے کا امکان موجود نہیں ہے ۔ اگر روس ابھی تک پی کے کے / پی وائے ڈی سے کوئی آس لگائے بیٹھاہے تواس کی اس پالیسی سے مستقبل میں  سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔امریکہ  پی کے کے / پی وائے ڈی  کواسلحہ   فراہم  کر رہا ہے ان کی تنخواہیں ادا کر رہا ہے اور  تربیت دیتے ہوئے فوجی اڈے کھول کر انھیں اپنے تحفظ میں لے رہا ہے ایسی صورت میں دہشت گرد تنظیم  پی کے کے / پی وائے ڈی کا روس کے مطالبات کو پورا کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے ۔اس تنظیم   کے مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے  اس سے روس کے مفادات کے لیے کام کرنے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ۔ اس نئے توازن کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے روس کو ترکی کیساتھ مل  کر پی کے کے / پی وائے ڈی کے دہشت گردوں کا شمال سے صفایا کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے  حتیٰ کہ مشترکہ فوجی کاروائیاں  کرنے  کی ضرورت ہے کیونکہ ترکی کی پی کے کے / پی وائے ڈی کے خلاف پالیسی   عالمی قوانین کی پاسداری کی  جدوجہد ہے ۔  اس جدوجہد کے نتیجے میں شمال میں ڈیرہ نہ جماسکنے والی پی کے کے / پی وائے ڈی کو  امریکہ کے لیے آلہ کار بننے سے بھی نجات مل جائے گی ۔

امریکہ پی کے کے سے پاک ایک پی وائے ڈی  کی پیش کش کیساتھ شام میں نیا توازن قائم کر رہا ہے ۔

 روس کی طرف سے ترکی کی عفرین کاروائی کا   خاموش تماشا دیکھنے کی پالیسی  امریکہ کو وقت مل جانے کا سبب بن رہی ہے ۔امریکہ کے وزیر خارجہ ٹلر سن  نے ترکی  میں  مذاکرات کے دوران  وقتی حل  کی تجاویز پیش کیں ۔مذاکرات کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ امریکہ پی وائے ڈی/ پی کے کے   سے متعلق اپنی کی پالیسی  پر بضدہے  اور وہ پی وائے ڈی کو پی کے کے سے علیحدہ  کرتے ہوئے اسے قومی عنصر بنانے کا ہدف رکھتا ہے ۔ اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے ترکی کے ساتھ مل کر کام  کرنے کی پیش کش باعث حیرت ہے    کیونکہ یہ  پی کے کے  کو شام میں الگ تھلگ رکھنے کے ایک  منصوبے کی طور پر دکھائی دیتی ہے   ۔  ترکی پی کے کے کے بعد شمال  سے متعلق تمام فیصلوں کو امریکہ  پر چھوڑنے کی پیش کش   کو مثبت نظر سے نہیں دیکھتا ہے ۔ روس کی طرف سے تماشائی کا  کردار اد ا کرتے ہوئے تمام فیصلے امریکہ پر چھوڑنے کی پالیسی پی کے کے سے پاک شمالی شام میں   ایک نئے  عنصر  کے   سامنے آنے کی وجہ بن جائے گی  ۔

 اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام میں امن کا قیام محاذ آرائی کی وجہ سے  مزید مشکل ہو جائے گا ۔  اس محاذ آرائی کے دوران روس اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔  روس کی  پی کے کے / پی وائے ڈی پالیسی  ترکی کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ روس کے مفادات کو بھی متاثر کرئے گی ۔  رو س کی طرف سے ترکی کی جدوجہد کی فعال طریقے سے حمایت کرنے سے پی کے کے / پی وائے ڈی کو   امریکہ کے زیر استعمال ایک  ہتھیار بننے سے  نجات مل سکتی ہے ۔



متعللقہ خبریں