حالات کے آئینے میں ۔ 04

حالات کے آئینے میں ۔ 04

898766
حالات کے آئینے میں ۔ 04

پروگرام " حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ترکی کی جدوجہد میں ایک نیا مرحلہ "شاخِ زیتون آپریشن" کے نام سے شروع ہو گیا ہے۔ ترکی PKK کی شامی شاخ PYD/YPG کو خود اپنی قومی سلامتی  کے لئے بھی اور شام کی زمینی سالمیت کے لئے بھی سخت خطرہ خیال کرتا ہے اور اس خطرے کو برطرف کرنے کے لئے PYD/YPG کے خلاف ایک طویل عرصے سے وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کے لئے تیاریاں کر رہا تھا۔ موجودہ مرحلے میں دہشت گردی  کی پٹی کے مغربی کنارے یعنی عفرین کے لئے  ترکی نے کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ ترک مسلح افواج  ایک طویل عرصے سے علاقے میں فوجی قوت  کو منتقل کر رہی تھیں اور اس دوران ادلب کے علاقے عفرین کے جنوب کی بھی ذمہ داری اٹھا کر علاقے کو گھیرے میں لے چکی ہیں۔ آپریشن کی تیاریاں  ایک طویل عرصے سے جاری تھیں اور صدر رجب طیب ایردوان کے اس بیان سے مختصر مدت کے بعد کہ " عفرین آپریشن کا  فیلڈ میں عملی آغاز ہو چکا ہے" 20 جنوری شام 5 بجے آپریشن شروع ہو گیا۔ اس آپریشن کو "شاخِ زیتون آپریشن " کے نام سے متعارف کروایا گیا۔

عفرین ، ترکی کے ساتھ سرحدی لائن پر ایک اہم جیوپولیٹک مقام  ہے۔ شام میں سن 2004 میں کروائی جانے والی اور اس وقت تک کی آخری  مردم شماری  کے مطابق عفرین کے علاقے  کی کُل آبادی 172.095  افراد ہے جن میں سے 64.758  افراد علاقے کے مرکز میں رہائش پذیر ہیں۔ عفرین پر اسد انتظامیہ کے فضائی حملے نہ ہونے کی وجہ سے  علاقہ نسبتاً زیادہ محفوظ ہے  جس کی وجہ علاقے کی طرف ہجرت کی شرح بھی زیادہ رہی ہے۔ فی الوقت عفرین کی آبادی اندازاً 3 لاکھ  کے قریب ہے۔ دہشت گرد  تنظیم کے لئے یہ علاقہ بحر روم کے علاقے میں داخلے کی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں دہشت گرد تنظیم  امانوس پہاڑی سلسلے  کے راستے  عفرین سے ترکی کی طرف ایک ترسیلی لائن قائم کر کے عسکریت پسندوں اور اسلحے کی ترسیل کی کوشش کر  رہی ہے۔ ترک مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز اس وقت تک عفرین سے علاقے میں داخل ہونے والے 40 سے زائد دہشت گردوں کو غیر فعال بنا چکی ہیں۔

ترک مسلح افواج کے شاخِ زیتون  کے نام سے شروع کردہ عفرین آپریشن  میں حملوں کا مرحلہ 20 جنوری کوشام 5 بجے ترک فضائیہ کے طیاروں کی شامی فضائی حدود میں داخل ہو کر عفرین میں موجود دہشت گردی کے اہداف کو نشانہ بنانے سے شروع ہوا۔ ٹھکانوں، مورچوں اور ایمونیشن ڈپووں کے طور پر PKK/KCK/PYD-YPG کے زیر استعمال 108 اہداف کو آپریشن میں شامل 72 طیاروں کی مدد سے تباہ کئے جانے کا اعلان کیا گیا۔ آپریشن کے پہلے مرحلے سے جو اشارے ملے وہ یہ تھے کہ عفرین میں PKK کی دہشتگردی کے خلاف   وسیع  فوجی مداخلت کی جائے گی۔

ترک مسلح افواج  اور ترکی  کی حمایت کے حامل شامی مخالفین نے شاخِ زیتون آپریشن کے دوسرے دن بّری آپریشن کا آغاز کر کے متعدد علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ آئندہ دنوں میں آپریشن کے اوّلین اہداف  سطح مرتفع کی پہاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں۔YPG کی توقع کے بر خلاف اور دشوار ترین فرنٹ سے آپریشن کا آغاز آپریشن کی اسٹریٹجی  کے حوالے سے اہم اشارے دے رہا ہے۔ پہاڑیوں کا کنٹرول سنبھال کر YPG کے فرار  کے راستے کو بند کرنے  کی کوشش کی جا رہی ہے۔   پہاڑیوں کے کنٹرول کے بعد ترک مسلح  افواج اور ترکی کے تعاون کے حامل شامی مخالفین YPG کے علاقے سے مکمل صفائے کے مرحلے میں داخل ہوں گے۔ دوسری طرف ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ آپریشن 8 مختلف محاذوں سے جاری ہے۔YPG کو بیک وقت متعدد محاذوں سے جنگ پر مجبور کر کے کمزور  بنایا جا رہا ہے۔

آپریشن  شروع ہوئے پانچ دن ہو چکے ہیں اور اس وقت تک کامیابی سے جاری ہے جبکہ دہشت گرد تنظیم PKK/YPG ایک غیر متناسب  دوہری جنگی تکنیکوں کے ساتھ مزاحمت کر کے رہائشی محلّوں کی طرف پس قدمی کر کے شہریوں کو زندہ ڈھال  کے طور پر استعمال کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس تکنیک سے جو دکھائی دے رہا ہے وہ یہ کہ دہشت گرد تنظیم خود اپنے جانی نقصان کو کم کر  کے اور شہریوں کے جانی نقصان میں اضافہ کر کے بین الاقوامی سطح پر ایک سیاہ پروپیگنڈہ کرنے کی کوششوں میں ہے۔ دہشتگردوں کا عفرین کے مرکز سے اور دیہی علاقوں سے شہریوں کو نکلنے کی اجازت نہ دینا بھی اس پہلو کی تصدیق کر رہا ہے۔

آپریشن کے فوجی پہلو کے ساتھ ساتھ اس کا ڈپلومیٹک پہلو بھی کافی حد تک مرکز توجہ بن رہا ہے۔ انتظامیہ کے ساتھ طے کردہ سمجھوتے کے دائرہ کار میں روس، شامی فضائی حدود کواپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ علاقے میں کنٹرول چوکیوں  کا مالک  روس کا ترکی کو نسبتاً زیادہ چھوٹے پیمانے  کے آپریشن پر قائل کرنے کی کوشش  میں ہونا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ تاہم یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ترکی کا،  عفرین میں موجود دہشت گردی کے خطرے  کے پائیدار خاتمے  کے لئے ،وسیع کلین اپ آپریشن کرنا ضروری ہے۔

ترکی، روس کے ساتھ جاری قریبی رابطے میں اضافی طور پر  امریکہ، یورپی یونین کے ممالک اور خلیجی ممالک  کے ساتھ بھاری ڈپلومیسی  کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ آپریشن  کے آغاز کے ساتھ ہی متعدد ممالک  کے سفیروں کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے شاخِ زیتون آپریشن کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں۔ دوسری طرف فرانس کا شاخِ زیتون آپریشن کو اقوام متحدہ  کی سلامتی کونسل  میں لے جانے کا اقدام، ترک وزارت خارجہ کے سفارتی اقدامات  کے ساتھ  شام میں انسانی  پہلو کے مذاکراتی ایجنڈے کی شق کی شکل اختیار کر گیا۔ علاوہ ازیں یورپی  کونسل میں PKK کے حامی بعض  حلقوں  کی طرف سے شاخِ زیتون  آپریشن  کو ایجنڈے پر لانے کی کوشش  کو بھی ترک  وزارت خارجہ  کی کوششوں سے روکا گیا۔

امریکہ کی طرف سے شاخِ زیتون آپریشن کے بارے میں متعدد  اور متضاد  بیانات جاری کئے گئے جن پر ایک عمومی نگاہ ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس آپریشن سے خوش نہیں ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور نیٹو  شاخِ زیتون آپریشن کو جائز خیال کرتے ہیں جبکہ   روس، شام میں امریکہ کے  بے حس روّیے کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔



متعللقہ خبریں