ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 04

اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات   کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا عفرین آپریشن پر جائزہ

898132
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 04

جمہوریہ ترکی  کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد تواتر سے جاری ہے ،  اس ضمن  میں   ترکی نے    شامی تحصیل عفرین میں ڈھیرے جمانے والی دہشت گرد تنظیم PKK  کے  خلاف شاخ ِ زیتون کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔ آج کے اس سلسلہ وار پروگرام میں اس کاروائی  اور اس کے ترک خارجہ پالیسیوں پر اثرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائیگی۔

اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات   کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک  کا اس موضوع پر   جائزہ ۔۔۔۔۔۔

ترکی کچھ مدت سے   اپنی سرحدوں کے جوار میں  دہشت گردی  کے خطرات   کے   سنجیدہ سطح  تک پہنچنے    کے  خلاف  فوجی کاروائی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ترکی اور ترکی  کی جانب سے تربیت  دیے گئے قومی فوج کے عناصر  نے کچھ مدت پیشتر  عفرین میں ڈھیرے جمانے والی   علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم PKK/YPG  کے  خلاف ایک کاروائی  شروع کی۔  کافی طویل  عرصے  تیاریاں جاری ہونے والا یہ آپریشن جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے اعلانات کے  قلیل مدت بعد  20 جنوری شام 5 بجے شروع ہوا۔  اس کاروائی کو شاخِ زیتون  کا نام دیا گیا  جس سے دنیا بھر کو آگاہی کرا دی گئی۔

اس  آپریشن کا فوجی  لحاظ سے جائزہ لینے سے ترکی اور  اس  علاقے میں اتحادیوں  میں کوئی خامی دکھائی نہیں دیتی۔کیونکہ ایک طویل مدت سے  علاقے میں  فوجیں اور فوجی سازو سامان جمع کیا جا رہا تھا۔  ترکی کی سرحدوں کے اندر     اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ عفرین کے مشرق میں آزاد شامی فوج  اور جنوب میں ترک فوجی تعینات ہیں۔ لہذا یہاں پر آپریشن  الا باب   سے ہٹ کر کیا جا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں  پہلے محاصرہ اور بعد میں  چڑھائی کی جائیگی۔

شام کے شمال میں واقع عفرین  حلب شہر سے منسلک  ایک تحصیل ہے  جو کہ ترکی  کی سرحدوں  پر ایک اہم محل و قوع کا مالک ہے جہاں پر ترکمان، کرد اور عرب باشندے مل جل کر زندگی بسر کیا کرتے تھے۔  تا ہم PKK/YPG  کے علاقے میں مؤثر بننے  سے پیشتر عفرین میں ترکمانوں کی ایک بڑی  تعداد آباد تھی۔ عفرین اور اس  کے گرد و نواح  کے ترکمان  دیہاتوں اور رہائشی بستیوں کے نام  کچھ یوں ہیں: دیلی عثمان، بن دیریک، ولید لی،  گیون دہ۔ تپے کھوئے، علی ویران، عالم دار، چکمک وغیرہ۔  اسی طرح ضلع غازی این تپ  کی سرحدوں سے جنوب  کی جانب  بلبل، محمود  قبیلہ ، قلعے کھوئے ، سارنجی ،   درمیانی اور زیریں وادی۔ علی بیگ، کارشک کوناک،  خضری۔  چولاک لی، کاش اُزادی، میدانی  علاقہ، آلکانی ، دوراک لی، علی جی، کزل  باش واقع ہیں۔نہر چر چیم  کے مشرق میں یعنی ترکی  کی سرحدوں کی جانب  کے علاقے کے مقامات: درویش  اوبا، کوچک اتامانلی،  قاضی گاؤں، مامالی اوشاک، عمر   ، سارے اوشاک ، کشلا گاؤں،  سلچیق، چاکال لی، شیخ چاکال لی اور  ان قلعے دیہات  وغیرہ ہیں۔  اگر  چرچیم  نہر کے ساتھ ساتھ چلیں تووہاں پر  زیرین کشلا، دار گیونئے،  سو باشے، چولاک لار، قارا باش، حاجی حسن لی، چوبانلی، قاران گاؤں،  کوجا مان، شیخ عبدالرحمان  غازی اور حاضی اسکندر دیہات کا وجود ملتا ہے۔ عازیز اور عفرین   کے درمیانی علاقے میں واقع  ترکمان دیہاتوں کے نام  یہ ہیں:دام،  کُوزنجو پینار، آرپا ورین، دیکمے  تاش ، عمران لی،  علی بے لی، چیمن لی،  دیریکلی ،  زیرین دام، قاستال، زیارت، کاطمہ،  حجار، ناصمیہ ، چیکے، دودان،  ینی یاپان ، تل حیسن، یل بابال، دفتر دار وغیر  ۔

عفرین کو  ایک آسان ہدف کے  طور  پر تصور نہیں کیا جا نا چاہیے۔ کیونکہ PKK/YPG  ایک طویل مدت سے علاقے میں تیاریوں میں مصروف ہے، اس مقصد کے تحت اس نے  بھاری تعداد میں دہشت گردوں کی تربیت کی ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ    انہوں نے علاقے میں ایک بری تعداد میں سرنگیں  کھودی ہیں اور    کثیر تعداد میں اسلحہ کی ذخیرہ اندوزی کی ہے۔  علاوہ ازیں     PKK/YPG  نے   ایک ہی سانچے کی  پیداوار ہونےو الی  داعش سے   بہت کچھ سیکھا اور اب  یہ  انہیں  جنگی میدان میں استعمال کر رہی ہے۔  لہذا حالیہ آپریشن میں  شہریوں کو زندہ ڈھال   کے طور پر استعمال کرنے سمیت   داعش کے اپنائے ہوئے  مختلف طریقہ کار  پر عمل درآمد کرنے کی کوشش  کی جائیگی۔ تا ہم ، ان تمام  باتوں کے باوجود ترک فوج  اور  اس کے اتحادی  علیحدگی پسند تنظیم  کو آخر کار شکست سے دو چار  کرنے کی  طاقت کے مالک ہیں۔ ہمیں  اس بات  کی بھی وضاحت کرنی  چاہیے کہ  ترکی کی یہ فوجی کاروائی قطعی طور پر کردوں کے خلاف نہیں ، ویسے بھی علاقے کے کرد باشندے بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔  علاوہ ازیں یہ تفصیل بھی اہم ہے، آپریشن میں حصہ لینے والے تمام تر ترکمان دستوں کے اہم عہدوں پر کرد ی کمانڈر فائز  ہیں۔  یہ لوگ بھی PKK کے خلاف    ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔

اگر اس معاملے کا امریکہ کے دریچے سے جائزہ لیا جائے تو  اس  مرحلے پر  امریکہ کے لیے عفرین کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔  حتی ٰ  امریکہ اس کاروائی سے اندر ہی اندر خوش بھی ہو سکتا ہے۔  جس کی دو وجوہات ہیں۔  پہلی وجہ عفرین کے معاملے میں ترکی اور روس کے درمیان چپقلش پیدا ہونے کا احتمال  ہے تو دوسری  وجہ  جیسا کہ  یہ سب کے علم میں  ہے کہ امریکہ دریائے فرات کے مشرق میں PKK کے ہمراہ   طویل عرصے سے ایک  سیاسی و عسکری منصوبے  کو فروغ  دے رہا ہے۔  اس  منصوبے    کے عین سامنے  واقع ترکی کو کسی اور مسئلے میں مصروف رکھنا  امریکہ کے لیے باعث ممنونیت بھی  ہو سکتا ہے۔

ترکی، فرات ڈھال آپریشن کی طرح  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  کی قرار دادوں اور اقوام متحدہ کی  51 ویں  دفع    کو بنیاد بناتے ہوئے  موجودہ شاخ زیتون آپریشن پر  کا ربند ہے۔ لہذا   یہ کاروائی  عالمی قوانین    کے مطابق  سر انجام پا رہی ہے۔  میں سمجھتا ہوں  کہ یہ کاروائی عفرین تک محدود نہیں رہے گی  بلکہ  اس کا دوام  بھی ہو گا۔ در اصل  حالات  بھی اس چیز کے لیے ساز گار ہیں۔ کیونکہ روس اور امریکہ کے درمیان  شام کے معاملے میں  سنجیدہ سطح کی کشمکش پائی جاتی ہے۔  اس ماحول میں  توازن کے عنصر کے  طور پر ترکی   پیش پیش   ہے، ترکی اس  ماحول سے استفادہ کر سکتا ہے۔ ویسے بھی جمہوریہ ترکی کے صدر کے بیانات میں اس عزم  کا واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے۔ عفرین کے بعد اس آپریشن کو پہلے منبچ اور پھر تل عبید کی جانب وسعت دیا  جانا   ایک تعجب کی بات نہیں ہو گا۔

تحریر: ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک



متعللقہ خبریں