پاکستان ڈائری - 04

ایشیائی اور افریقی ممالک میں پچپن کی شادی کا فرسودہ رواج پایا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین سے زائد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہوجاتی ہے

896333
پاکستان ڈائری - 04


ایشیائی اور افریقی ممالک میں پچپن کی شادی کا فرسودہ رواج پایا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین سے زائد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہوجاتی ہے۔اس ہی طرح پاکستانی بچیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کم عمری میں بیاہ دی جاتی ہیں جن کے حوالے سے مکمل ڈیٹا بھی دستیاب نہیں ۔تاہم اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔

بہت سی جگہوں اور علاقوں میں نکاح رجسٹرڈ بھی نہیں کروایا جاتا اس لئے ایسے جرائم پر پردہ پڑا رہتا ہے۔بچیوں کے ساتھ صرف کم عمری میں شادی کا ظلم نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی شادی بعض اوقات انکی عمر رسیدہ بوڑھے مرد سے کروائی جاتی ہے اور وہ ساری عمر گھریلو تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں۔

یونیسف کے مطابق کم عمری کی شادی سے مراد ایسی شادی ہے جو 18 سال سے کم عمر میں کی جائے اور لڑکا لڑکی اس زمہ داری کا بوجھ اٹھانے کا قابل نا ہو ۔کم عمری کی شادی میں زیادہ شرح لڑکیوں اور بچیوں کی ہوتی ہے جبکہ کچھ کیسز میں لڑکے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کم عمری کی شادی بچی کی زندگی میں بہت سی محرومیوں کا باعث بنتی ہے۔سب سے پہلے یہ صحت پر حملہ آور ہوتی ہے ۔کم عمری میں حمل سے اسکی زندگی اور بچے کی زندگی خطرے میں آجاتی ہے ۔دوسرا کم عمری میں شادی کی وجہ سے بچی کا تعلیمی سلسلہ رک جاتا ہے۔ان تمام محرومیوں کی وجہ سے لڑکی ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے جس سے وہ اپنی اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے سے بھی قاصر ہوجاتی کیونکہ اسکی صحت اور عمر اس کو اس چیز کی اجازت نہیں دیتی ۔یوں ایک ننھی کلی کھلنے سے پہلے مرجھا جاتی ہے اپنے کھیلنے کودنے ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں اس پورے خاندان کی زمہ داری اس پر ڈال دی جاتی ہے۔

پاکستان میں خون بہا ، قصاص کے کچھ کیسز میں بیٹی دے کر معاملے کو ختم کردیا جاتا ہے۔ونی ، سوارہ، صلح صفائی کے دوران بھی کم سن بچیوں کا تبادلہ کردیا جاتا ہے ۔بعض اوقات غربت کی وجہ سے بھی پیسے لے کر بیٹی کی شادی بڑی عمر کے مرد سے کردیتے ہیں۔اس ساری صورتحال میں بچی کی زندگی اذیت ناک بنا دی جاتی ہے وہ اکثر غلاموں والی زندگی بسر کرتی ہے۔

بچی اتنی کم عمری میں بیوی ، بہو اور ماں بننے کی ذمہ داری سے جسمانی اور ذہنی دباو کا شکار ہوجاتی ہے۔کتنی ہی بچیاں اس طرح کی شادی میں جنسی تشدد اور گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ بیٹے کی خواہش میں ہرسال بیٹی پیدا ہوتی ہے اور زچگی کے دوران کم عمر مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔غربت خوف کی وجہ سے یہ کم عمر بچیاں مانع حمل ادوایات کا استعمال بھی نہیں کرپاتیں اس لئے ہر سال کمزور یا کچھ کیسز میں معذور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ آگے چل کر لڑکیاں متوازن غذا کی کمی اور علاج معالجے کی کم سہولتوں کے باعث بچہ دانی کے کینسر،فیسٹولا،ہڈیوں کے امراض ،کیلشیم کی کمی کا شکار ہوجاتی ہیں۔

پاکستان کے چائلڈ میرج رسٹرینٹ ایکٹ کے مطابق شادی کے لئے لڑکے کی عمر 18 اور لڑکی کی عمر 16 سال لازم ہے۔خلاف ورزی کرنے والے کو کم ازکم سزا ایک ماہ اور جرمانہ 1000 روپے ادا کرنا ہوگا ۔تاہم اس قانون میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے کیونکہ قید اور جرمانے کی سزا کم ہے دوسرا اس کا اطلاق بھی نہیں ہوتا اور 9 سے 10 سال کی بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے۔سندھ اسبملی نے 2014 میں قانون سازی کرتے ہوئے لڑکیوں کے لئے شادی کی عمر کی حد 18 سال کردی تھی جوکہ احسن اقدام تھا۔

 ہمیں کم سن بچیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہوگی ۔لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ان پر جنسی تشدد، کم عمری میں ماں بننا اور امتیازی سلوک کے خلاف فوری طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔اس ضمن سول سوسائٹی،میڈیا، سوشل میڈیا اور مساجد میں علماء کرام اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ہمارے مذہب میں یہ حکم ہے کہ شادی کرنے والا عاقل اور بالغ ہو اس میں دونوں کی رضا مندی شامل ہو۔ایک عاقل و بالغ لڑکی اور لڑکا ہی شادی کا بوجھ اور زمہ داریاں اٹھا سکتے ہیں۔چھوٹی بچیاں نئی نسل کو پروان چڑھانے کا بوجھ نہیں سہن کرپاتی اس لئے ہم سب کو بچپن کی شادیوں کو روکنا ہوگا ۔یہ عوام الناس کا مسئلہ ہے ہمیں عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہوگا 



متعللقہ خبریں