تہذیب کی دوڑ

مہذب ہونے کا انحصار مال و دولت  یا پھر ٹیکنالوجی  کا مالک بننے پر نہیں انسان بننے پر ہے: ابراہیم قالن

888853
تہذیب کی دوڑ

مہذب ہونا  کسی مادی وسائل  یا پھر ٹکنولوجی  لو کو استعمال  کرنے سے ہی  منسلک نہیں ہےبلکہ یہ انسان کے  مکمل طور پر انسان ہونے سے متعلق ہے۔

تہذیب کے بارے میں  بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ  اس سے ٹھیک بیس سال قبل سموئیل ہن ٹینگٹون  کی کتاب "  تہذیبوں کے درمیان  جھڑپ اور  نئے عالمی نظام کے قیام " کی وجہ سے ابھر کر سامنے آیا تھا ۔

سموئیل ہن ٹینگٹون   کی  سوچ سے مختلف  یہ بحث و مباحثہ  سرد جنگ  کے فوراً بعد  پیدا ہونے  والی نئی استعماری  منصوبہ بندی کو قانونی   رنگ دینے کے لیے  استعمال کیا گیا ۔ علاوہ ازیں  مہذب بننے  اور مہذبانہ طریقے سے بحث  و مباحثہ کرنے   کی فضا بھی  متاثر ہوتی رہی۔ تہذب کی اصطلاح دراصل مشتبہ ماضیپر ایک نگاہ  ڈالنے پر  ہمیں  محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہےلیکن اس کا مطلب ہر گز   خشک  کے ساتھ ساتھ گیلی لکڑیوں  کو بھی جلانے کے معنیٰ میں نہیں لیا جانا چاہیے۔

انیسویں صدی میں    یورپی استعماری قوتوں نے  تہذیب کے لفظ کو  ثقافت   اور  معاشرے   کے اعلیٰ پائے  سے تعلق رکھنے اور اپنے قبضہ کردہ علاقوں کےلیے قانونی حیثیت دلوانے کے لیے  استعمال کیا ۔

مہذب بنانے کے  مشن نے  انسانی اور اخلاقی ایگو  کی تسکین کو غیر یورپی باشندوں پر ان کے مفادات کے تحفظ کے دعوے کیساتھ زبردستی لاگو ہونے والے ایک عمل کے طور پر پیش کیا  ۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ  یورپ کی سامراجی مہم جوئی ایشیا یا افریقہ میں  ثقافت، قانون، نظام یا تہذیب نہیں لا سکی تھی ۔اس کے برعکس اس مہم جوئی سے  یورپی اور غیر یورپی اقوام کے درمیان دوریاں  مزید بڑھ گئی  تھیں ۔ کارل مارکس،   روڈیارڈ کیپلنگ  ،جان سٹیارٹ مل اور تھامس مکلایے  جیسے متعدد یورپی دانشوروں  نے ایشیائی معاشرے پر مغربی مداخلتوں کی  فوائد کے وعدے  کیے تھے  لیکن  در اصل  ان  کا   حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ استعماریت اور سامراجیت میں تہذیب، انسانیت  یا نیکی نیتی پر مبنی کوئی چیز موجود  نہیں تھی ۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کیا تہذیب  کی اصطلاح کے صحیح استعمال کو  ضمانت میں لینے والے ثقافتی پیرامیٹرز   میں   19 ویں صدی  کے بعد واضح تبدیلیاں آئی ہیں ؟ در  حقیقت  اس کا

دا رومدار  آپ کی سوچ پر ہے ۔ مشترکہ عالم انسانیت کے مفادات  کے لیے موجودہ ثقافت اور تہذیب کے  تنظیمی ڈھانچوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان  کے ارادوں میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں ۔

اس معنی ٰ میں  اکثریت پر مبنی ، کثیر الاثقافتی  اور  مل جل کر   زندگی بسر کرنے کے   بیانات میں اضافے     قابل تعریف  اور شاید ان کے بارے میں مزید بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تا ہم  سامراجیت  کا ورثہ،  تسلط، ہیگے مونیا اور بالا دستی    کے دعووں  کو نئے نظریات اور  میٹرکس  کے ذریعے   از سر نو پیش کردہ  یہ عمل 21 ویں صدی میں تا حال  کافی  جاندار ہے۔

یہ صورتحال  تہذیبوں پر ہونےو الی بحث   میں شک و شبہات پیدا کرتی ہے۔  ہم تہذیبی نظریے کو  سامراجی قوتوں  کے  سازشیوں کے ہاتھ سے  کس قدر بھی بچانے کی کوشش کیوں نہ کریں تو بھی ہمارا ماضی افریقہ، مشرق وسطی  کے ایک بڑے رقبے پر ، ایشیا اور دیگر مقامات پر  ہمیں   تا حال   اپنی یاد  دلاتا ہے۔ نئی  بہادر دنیا کے مستقبل کے حوالے سے   ہم میں شکوک  پیدا  ہونے  کا موجب بننے والے    ماضی میں  پیش آنے  واقعات  ہی نہیں  بلکہ یہ موجودہ دنیا کے نظام میں   موجود نا انصافیوں  اور  غیر متوازن    حقائق  بھی ہیں۔

اگر نظریاتی  طور پر  سوچا جائے  تو  تہذیبی بحث کو   ہچکچاہٹ    سے دوچار کرنے والا مزید  ایک عنصر پایا جاتا ہے۔  پوسٹ  انڈسڑیل   لہر نے   بنی نو انسانوں  کے کرہ ارض پر سفر کو سمجھنے  میں بار آور ثابت ہونے والے تمام تر بنیادی  نظریات اور افکار کو  نقصان پہنچایا ہے۔ پوسٹ  ۔ ماڈرن   اور  بتدریج  زور پکڑنے والے اینٹی ریئلسٹ  حلقوں کی حساسیت  کے مطابق، تہذیب، ثقافت، سماج۔۔ ماضی یا پھر  کسی فرد کو سمجھنے کے لیے   کسی  بھی مقصد کے ساتھ نہ استعمال کیے  جا سکنے کی حد تک یہ   ایک بڑی اور بے  ڈھنگی سوچ ہے۔ کافی زیادہ   عمومی  جائزے لینے کے باعث  اہم  تفصیلات اور  نازک فرق  نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔  ان کے مطابق "عظیم  حکایتی  دور"  کا خاتمہ ہونے کے باعث  تہذیب کی طرح کی  با عظمت اصطلاحات   کو  اب ہمیں  ماضی میں  چھوڑنا ہو گا۔ تا ہم یہ   کہانی ،  پوسٹ ماڈرنزم  کے پیروکاروں کی خواہش کے مطابق  یہاں پر نکتہ پذیر نہیں ہوتی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ  پس  جدیدیت ،   بذات خود  عالمی  تفہیم    کی وضاحت  کرنے کے بجائے    ایک غلط  مفروضہ  بن چکی ہے  یہی وجہ ہے کہ اس ما بعد جدت پسندی      کے افکار اور تجزیات ایسے ثابت ہوئے  جن سے  غیر حقائق پر مبنی واقعات دنیا  میں رونما ہونے لگے اس سے بھی زیادہ  ہر روز  پیش آنے والے واقعات    کا اثر براہ راست   عالمی مالیاتی نظام   اور سیاسی  افق  پر پڑ رہا ہے ۔ صرف  چند   ممالک کے احساس ذمے داری کے نتیجے میں   ہم دنیا کو   صاف ستھرا     اور رہنے کے قابل نہیں بنا سکتے    اس کے برعکس جنگوں ، اسلحے کی  بے لگام دوڑ،جوہری اسلحے    کی موجودگی ،انسانی خواہشات کی  ہوش ربا ہوس اور تفریحی   یلغار کی بے راہ روی   کا سلسلہ   جاری رہتےہوئے  ایک  جدید،آزاد،خود مختار ،خوش حال  اور مساوی  دنیا کا تصور نا ممکن نظر آتا ہے۔ اگر نگاہ ڈالی جائے تو یہ تمام عناصر   ہمیں کافی جدید اور جاذبیت سے لبریز نظر آتے ہیں جن کی ابتدا   19 ویں اور 20 ویں صدی کے درمیان ہوئی جو کہ آج بھی قائم ہیں مگر افسوس  کہ   اس عالمی جدت پسندی  کی اندھی  دوڑ دھوپ میں   عالمی سطح پر رونما ہونے والے نا خوشگوار واقعات  اور  مصائب   کے خاتمے کےلیے  کوششیں  ناکام ثابت ہوئیں۔ عالمی تہذیب  اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ان تمام     منفی پہلووں  اور حالات  کے خاتمے  کےلیے   سنجیدگی سے کوششیں کرنا ہونگی  ۔"دیر آمدید درست آمدید"  والی بات کہ  اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا   اگر ہم چاہیں تو  ماضی    سے سبق حاصل کرتےہوئے آنے والی نسلوں کےلیے ایک بہتر مستقبل  کی خاطر مشترکہ طور پر  اس دنیا کو  ایک بہتر جگہ بنانے   میں  تعاون کیا جا سکتا ہے۔ عالمی تہذیب  و تمدن  کو  ایک قابل  قدر درجہ  دینے کے لیے  ہمیں  اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے  کے بجائے عاجزی و انکساری،رواداری   اور  مہذب طریقے  سے  معاشرے     کا حصہ بنانے  کی مہم میں حصہ لینے کی  ضرورت ہے ۔

ارسطو کے الفاظ میں ایک اچھی زندگی کا تعلق زندہ رہنے سے اور فارابی کے الفاظ میں ایک ہر معنی میں مکمل  شہر کی تعمیر سے وابستہ ہے۔ زندگی عقلمند، باکمال، نپا تُلا اور باادب بننے کا راستہ ہے۔ دوسروں کے وجود  سے اور  ان  کی رفاقت سے لطف اندوز ہونا،  ان پر غلبہ پانے یا پھر ان کا استحصال کرنے کی بجائے ان کے کردار سے اپنی زندگی کو وسعت بخشنے کا نام ہے ۔ ہمارا خود کو اس کا مالک  نہیں بلکہ اس کا محافظ اور خدمتگار خیال کرنا اپنے آپ  کو ایک زیادہ بڑی حقیقت  کے حصے کے طور پر دیکھنے کا مفہوم رکھتا ہے۔ آپ بڑی ترین اقتصادیات کے، مضبوط ترین فوج کے اور دنیا  کے بڑے ترین شہروں کے مالک ہو سکتے ہیں لیکن یہ چیزیں آپ کو مہذب نہیں بنا سکتیں۔ بڑے صنعتی معاشروں کے لئے بربریت کوئی اجنبی چیز نہیں ہے۔ افریقہ میں یا پھر ایشیاء میں بسنے والا ایک عام سا دیہاتی فطرت ، حیوانات یا پھر دیگر انسانوں کے مقابل اپنے انسانی روّیے  اور محتاط طرزعمل کے ساتھ مہذب ، نفیس اور حساس  ہونے   جیسی بہترین خصوصیات کا مالک ہو سکتا ہے۔ اقتصادی طاقت اور تکنیکی سازوسامان کی کمی کسی شخص کے کم مہذب ہونے کا مفہوم نہیں رکھتی۔ دونوں عالمی جنگوں میں، ہولوکاسٹ میں، بوسنیا کی نسل کشی میں، موسمیاتی تبدیلیوں میں اور جدید دور کی دیگر تباہیوں میں  جس چیز کا مشاہدہ ہوتا ہے وہ یہ کہ مادی خوشحالی، قدرت اور جسارت کا مالک ہونا آسانی سے  بربریت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ فطرت پر اپنی  مادی حاکمیت  پر غرور کرنا ہمیں نہایت سرعت سے مہذب ہونے سے اور تہذیب سے دور کر دے گا۔ خواہ کسی بھی حوالے سے دیکھا جائے   ایک ایسے دور میں کہ جب  لاکھوں انسان  موت کے منہ میں جا رہے ہوں، بھوک اور افلاس کا شکار ہو رہے ہوں، ہجرت کرنے پر مجبور ہوں اور لاچاری و بے بسی کی زندگی گزار رہے ہوں   میرا نہیں خیال کہ ہم مہذب ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں۔ تہذیب کا آغاز احساس، احترام اور محبت جیسے بنیادی روّیوں سے ہوتا ہے۔ اگر انسان ان خصوصیات کا مالک نہیں ہے تو پھر  خواہ وہ مین ہٹن کے ایک سکائی اسکریپر میں رہتا ہو یا کسی جھونپڑی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی مختصر یہ کہ پہلے ہمیں خود مہذب ہونا اور تہذیب اختیار کرنا ہوگا۔ مہذب بنے بغیر اور تہذیب اختیار کئے بغیر ہم کسی تہذیب کے مالک ہونے کا دعوی نہیں کر سکتے۔ اور مہذب ہونے کا انحصار مال و دولت  یا پھر ٹیکنالوجی  کا مالک بننے پر نہیں انسان بننے پر ہے۔



متعللقہ خبریں