حالات کے آئینے میں ۔ 02

ہم ایک ایسے غیر حتمی دور سے گزر رہے ہیں کہ جس کا نظام لمحہ بہ لمحہ اضمحلال کا شکار ہو رہا ہے

888035
حالات کے آئینے میں ۔ 02

پروگرام " حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ہم ایک ایسے غیر حتمی دور سے گزر رہے ہیں کہ جس کا نظام لمحہ بہ لمحہ اضمحلال کا شکار ہو رہا ہے لیکن اس کی جگہ کوئی نیا سسٹم ابھی تک پیش نہیں کیا گیا۔ ورلڈ آرڈر  کے نام پر ایک افراتفری کے ماحول کا عکاس یہ دور ترکی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر  چیلنجوں کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ اہم  مواقع  بھی لایا ہے۔ ترکی اپنی خارجہ پالیسی میں اٹھائے گئے اقدامات کی مدد سے اس غیر حتمی دور سے نکلنے کی کوششوں میں ہے۔ ترکی ایک طرف تو روس جیسی نئی ابھرتی طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے  اور دوسری طرف مغربی دنیا کے داخلی تضادات  سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ خاص طور پر امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات  کے دور میں ترکی کا فرانس اور برطانیہ کے ساتھ الگ الگ نئی وابستگی کی کوشش میں ہونا مرکز توجہ بن رہا ہے۔

اس حوالے سے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کا حالیہ دورہ فرانس الگ سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اس دورے کے دائرہ کار میں  ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات اور دفاعی صنعت میں تعاون کے حوالے سے اہم پیش رفتیں سامنے آئیں۔

حالیہ دور میں رکاوٹوں کا شکار ترکی کا یورپی یونین کی رکنیت کا عمل خاص طور پر ملک میں ریفرینڈم کے دور میں جرمنی کے جانبدارانہ روّیے کی وجہ سے جمود کا شکار ہو گیا تھا۔ یورپی یونین پارلیمنٹ  کا ترکی کے رکنیت مرحلےکو روکنے کا مطالبہ یورپی یونین کونسل کی طرف سے رد کئے جانے کے باوجود ایک اہم انڈیکیٹر کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ تاہم ماکرون نے  یورپی یونین کی طرف سے بھی اور ترکی کی طرف سے بھی رکنیت مرحلے کے دوہرے پن کو ختم کر کے رکنیت کی جگہ پارٹنر شپ پر کام کرنے کی ضرورت کا دفاع کیا ہے۔ خاص طور پر 15 جولائی  کی فیتو بغاوت  کے بعد ترکی یورپی یونین تعلقات  کشیدہ ہو گئے اور باغیوں کی گرفتاری کو بہانہ بنا نے والی  یونین، ترکی کے ساتھ فرانس کے توسط سے نئے تعاون کے فارمولے پر بحث کا آغاز کر رہی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی لہروں، اقتصادی بحرانوں اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی وجہ سے مسائل کی شکار یورپی یونین ترکی اور برطانیہ کو استعمال کر کے  تعاون کے نئے فارمولے متعارف کروانے کی کوششوں میں ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ سگمار گیبریل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ برطانیہ ماڈل ترکی کے لئے ایک متبادل تشکیل دے سکتا ہے۔

دوسری طرف ترکی کے حوالے سے دورہ فرانس کو اہم بنانے والے دو بنیادی عناصر اور بھی ہیں۔ ایک سیاسی اتحادوں میں تنوع پیدا کیا جانا اور دوسرا دفاعی صنعت  میں تعاون میں اضافہ کیا جانا۔

ترکی کو امریکہ کے ساتھ PKK/YPG کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت اعلان کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھی طرح کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ترکی کی زیر قیادت یورپی یونین اور امریکہ کے خلاف تاریخی فیصلہ کیا جانا فریقین کے درمیان جاری  کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بنا ہے۔ امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے دور میں ترکی نے اپنی خارجہ پالیسی میں مغربی  دنیاکے اتحادوں میں تنوع پیدا کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔ یورپی یونین میں ہالینڈ اور جرمنی کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے دور میں ترکی برطانیہ اور فرانس کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور بین الاقوامی کرداروں کے درمیان توازن کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اپنے ملّی مفادات میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں ہے۔  فرانس اور جرمنی یورپی یونین کے دو مضبوط ملک تھے برطانیہ کے یونین سے نکلنے کے فیصلے پر جرمنی کے مقابلے میں ترکی کے ساتھ تعلقات کو زیادہ  استدلالی بنیادوں پر آگے بڑھانے کے موقف کے حامل ملک فرانس کے ساتھ ترکی کے تعلقات مثبت شکل میں جاری ہیں۔ ترکی کے حوالے سے فرانس کے ساتھ تعاون حالیہ دور میں جرمنی کے ترکی کے  خلاف منفی روّیے  کے متبادل کے طور پر دکھائی دے رہا  ہے۔

صدر رجب طیب ایردوان کے دورہ فرانس کا دوسرا اہم عنصر دفاعی صنعت میں تعاون ہے۔ فرانس کی دفاعی صنعت یوروسیم اور ترکی کے دفاعی صنعت کے مشاورتی دفتر  کے درمیان طویل مسافت کے ریجنل ائیر اینڈ میزائل  دفاعی سسٹم  پروجیکٹ کا فیز B سمجھوتہ صدر ایردوان اور فرانس کے صدر ماکرون  کی موجودگی میں طے پایا۔ اٹلی کی بھی ساجھے داری سے ائیر اینڈ میزائل دفاعی  سسٹم پروجیکٹ  ترکی کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ روس سے S-400 ائیر اینڈ میزائل دفاعی سسٹم کی خرید کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ترکی نیٹو کے اتحادیوں  کے ساتھ مل کر ایک اور ائیر اینڈ میزائل سسٹم تیار  کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان سمجھوتوں سے ترکی کا مقصد ایک سے زائد اور مختلف سسٹموں سے اپنے ائیر فیلڈ کا  دفاع کرنا  اور کسی ممکنہ اور کسی بھی طرف سے آ سکنے والے خطرے کے مقابل تدبیر اختیار کرنا ہے۔

حالیہ دور میں ترکی دفاعی صنعت میں اہم منصوبوں کا آغاز کر رہا ہے اور بین الاقوامی خارجہ پالیسیوں  میں اپنے اتحادوں میں تنوع پیدا کرنے کی پالیسی  کی عکاسی اپنی دفاعی صنعت میں بھی کر رہا ہے۔ جرمنی اور امریکہ کے ساتھ ایک طویل عرصے سے چلتے چلے آنے والے دفاعی صنعت کے اتحاد کے دونوں ممالک کی طرف سے سیاسی دباو کے لئے استعمال کئے جانے کے مقابل ترکی، برطانیہ، فرانس، روس، یوکرائن، پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعاون کو فروغ دے کر ایک طرف تعاون میں تنوع پیدا کر رہا ہے تو دوسری طرف دفاعی صنعت کو مضبوط بنا کر اس شعبے میں  بیرونی انحصار کو کم کر رہا ہے۔

صدر رجب طیب ایردوان کے دورہ فرانس کے دوران مذکورہ بالا سمجھوتے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں اور بھی اہم سمجھوتے کئے گئے۔ ترک ایگزائم بینک اور فرانس کے بی پی فرانس  اشورینس اسیکسپورٹ کے درمیان  دو طرفہ تجدید بیمہ کا سمجھوتہ طے پایا۔ علاوہ ازیں ائیر بس اور ٹرکش ائیر لائنز  کے درمیان طیاروں کی خرید کا سمجھوتہ طے پایا۔

حاصل کلام یہ کہ ترکی مغربی دنیا  کے داخلی تضادات  سے فائدہ اٹھا کر نئے اتحادوں کا نیٹ ورک تیار کر رہا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔ یہ اقدامات ترکی کے ہاتھوں کو امریکہ اور جرمنی  جیسے ممالک  کے مقابل مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔



متعللقہ خبریں