ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ ۔ 50

ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ ۔ 50

880244
ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ ۔ 50

 

ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ ۔ 50

امریکہ کے  صدر ڈونلڈ ٹرمپ   تمام تر  انتباہات کے باوجود القدس کو  اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے  ک کا فیصلہ سنادیا ۔ آج کے اس پروگرام میں  صدر ٹرمپ کے اس فیصلے  کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں  اتاترک یونیورسٹی  کے شعبہ بین الاقوامی  امور کے  ریسرچ فیلو  ڈاکٹر  جمیل   دوواچ اپیک کے  جائزے کو آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

عالمی رائے عامہ  کے انتباہات کے باوجودامریکہ کے  صدر ڈونلڈ ٹرمپ   القدس کو  اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے  کا فیصلہ سنادیا ۔اس طرح امریکہ القدس  ( پچاس سالہ قبضے کے بعد)  کو اسرائیل  کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے والے پہلے ملک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔  صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر صرف  مشرقِ وسطیٰ اور اسلامی ممالک  میں ہی نہیں بلکہ  یورپ میں بھی شیدد ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں  اس فیصلے کے خلاف  مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔  اس  کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ انہوں نے گزشتہ سال  اپنی  انتخابی مہم کے دوران  صدر منتخب ہونے کی  صورت میں  القدس کو  اسرائیل کے  دارالحکومت کے طور پر تسلیم  کرنے  کا یہودی لابی سے جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا کردیا ہے(صدر  ٹرمپ کو جتوانے میں یہودی لابی نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا ۔ یہودی لابی امریکہ کی  سب سے اہم لابی سمجھی جاتی ہے )  اور انہوں نے آئندہ  اس لابی سے مزید بہت کام لینا ہے۔ دوسری بڑی وجہ  ان کو ان کے عہدے ہی کے دوران معزول کرنے کے لیے جس تحریک کا آغاز ہونے والا ہے اس سے قبل ہی انہوں نے   یہ قدم اٹھاتے ہوئے اسی لابی  کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے  لیے  بہتر سمجھا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں  اگر ان کو معزول کرنے کی کوئی قرارداد پیش کی گئی تو اس کی راہ میں یہودی لابی ہی دیوار کھڑی کرسکتی ہے۔ اس لیے انہوں نے   اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کے لیے یہودی لابی کو یہ تحفہ دیا ہےتاکہ یہ لابی ان کے اقتدار کو بچاے رکھے ۔امریکہ جو کہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک ہے 1967ء اور 1973ء  میں سلامتی  کونسل کی جانب سے  منظور کردہ  " مقبوضہ   علاقے"  جس میں القدس  بھی شامل ہے پر امریکہ کے بھی دستخط  موجود ہیں  اور اب وہ   القدس کو  اسرائیل  کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے    اپنے اس فیصلے  کو خود ہی ردی کی ٹوکری  کی نظر کررہا ہے۔  اسی طرح  مصر کے ساتھ 1978ء میں طے پانے والے کیمپ ڈیوڈ  سمجھوتے   جس میں پہلی بار    مشرقِ ِ وسطیٰ سلسلہ   امن     کا ذکر کیا گیا تھا  عملی طور پر ختم ہو کر رہ جائے گا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے جس میں    مشرقی القدس کے   اسرائیل کے قبضے  میں ہونے  کا ذکر کیا گیا ہے  کو اقوام متحدہ ، امریکہ، یورپی یونین  اور روس نے بھی قبول کرلیا تھا ۔ علاوہ ازیں امریکہ کے اس فیصلے سے   سلسلہ اوسلو سمجھوتے  کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

صدر ٹرمپ کے اس فیصلے  سے  علاقے میں شدید  واقعات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔  اس بحران سے فلسطین ، اسرائیل    اور  مشرقِ وسطیٰ میں نئے سرے سے جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اسرائیل  کے شام، ایران کے طاقتور بننے  اور حزب اللہ  کے علاقے میں موثر روپ اختیار کرنے   سے بڑی حد تک   بے چین ہونے سے متعلق ہم آگاہ ہیں۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کے  اس فیصلے سے   اسرئیل سمیت پورا علاقہ ایک بار پھر  انتفادہ کی لپیٹ میں آجائے گا  اور اس بار  شروع ہونے والا انتفادہ  شاید اس بار اسرائیل کے لیے جلتی پر تیل کا کام کرے۔ کیا صدر ٹرمپ  کو اپنے اس فیصلے سے باز رکھا جاسکتا ہے؟ فی الحال ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے  ۔ اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں  ان کو نہیں  روک سکتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو  گٹریس   نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر اپنے شدید  ردِ عمل کا اظہار  کیا ہے لیکن  اس کے  باوجود  وہ امریکی صدر کے فیصلے  کو تبدیل کروانے کی سکت نہیں رکھتے ہی کیونکہ  وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف   کسی بھی  صورت  کوئی قرارداد  سلامی کونسل سے منظور نہیں کروائی جاسکتی ہے۔ عرب لیگ ویسے ہیں  ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس میں کبھی  بھی یک جہتی اور اتحادکا مظاہرہ نہیں ہوا ہے  اور اب بھی    وہ امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرنے کے علاوہ   کچھ نہیں کرسکی ہے۔

صدر ٹرمپ  کا یہ فیصلہ  عالمی  پالیسی  کے لحاظ  بڑی اہمیت کا حامل  ہے اس فیصلے سے امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات  خراب ہوسکتے ہیں۔  یورپی یونین کے اہم ممالک میں سے   فرانس اور جرمنی   نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ یورپی یونین نے امریکہ   کے اس فیصلے   بین الاقوامی  قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اسے  اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔  برطانیہ بھی  حالیہ کچھ عرصے سے    شام ، سعودی عرب   اور عراق کی پالیسی کی وجہ سے   ٹرمپ  انتظامیہ   سے   الگ ہی  سوچ رکھتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے دنیا  مزید تقسیم ہو کر رہ جائے گی اور امریکہ اور اٹلانٹک  اتحاد کو بھی اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس وقت تک ٹرمپ کے فیصلے  کے خلاف سب سے سخت  بیانات عرب ممالک سے نہیں بلکہ  دیگر  اسلامی ممالک سے  آرہے ہیں۔  اس موضوع کے کس قدر سنجیدہ ہونے کے بارے میں  ترکی  پوری طرح آگاہ ہے۔  اس  لیے ترکی نے بھی اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ ترکی نے اپنے اس شدید ردِ عمل کے بعد    سفارتی سطح پر بھی اپنی کوششوں کا آغاز کردیا ۔ ترکی نے  اس سلسلے میں  القدس کی اہمیت  اور بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے اس کی کس قدر اہمیت ہونے سے بھی آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر ترکی  اس سلسلے میں عالمی برادری سے  حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو  اس سےسفارتی طریقے سے  مسائل کو حل کرنے  سے متعلق جو امید ختم ہو تی جارہی ہے اس کو بحال کرنے میں  کامیابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر امریکہ پر سفارتی طریقے سے شدید دباو ڈالا جائے تو   امریکہ اٹھائے  جانے والے  اقدام کو  واپس لے سکتا ہے۔ اس مسئلے کو  حل کرنے میں اسلامی تعاون تنظیم  بڑا کلیدید کردار ادا کرسکتی ہے۔ عالم اسلام  اپنے  اختلافات کو ختم کرتے ہوئے  مشترکہ  حکمتِ عملی اختیار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو  اس  بحران  پر وقت سے پہلے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔



متعللقہ خبریں