ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ۔49

ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ۔49

880250
ترکی کی دریچے سے مشرقِ وسطیٰ۔49

 

سعودی عرب میں حالیہ کچھ عرصے سے  غیر معمولی تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں ۔ یہ حالیہ واقعات  ملکی اقتدار میں  بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث ہیں یا پھر تخت  پر قبضہ کرنے کا کھیل ہے؟  ہم اپنے اس ہفتے کے پروگرام میں  سعودی عرب میں  ہونے والی حالیہ تبدیلیوں  اور ان تبدیلیوں کا خطے کی صورتِ حال پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ پیش کریں گے۔

اتاترک   یونیورسٹی  کے شعبہ بین الاقوامی  امور کے   ریسرچ فیلو  ڈاکٹر جمیل  دواچ کے اس موقع سے متعلق جائزے کو آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

سعودی حکومت نے ہفتہ چار نومبر کی رات شاہی خاندان کے ارکان سمیت تقریباً 50 اہم ترین افراد  جن میں  گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا ۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جانب  سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔ان تمام  افراد کو  ایک پرتعیش ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان کے اثاثے منجمد ہیں۔  تمام ارکان شاہی خاندان اور وزارت داخلہ کی اجازت کے بنا بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے چند ماہ قبل اپنے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں انسدادِ بدعنوانی کے لیے مجلس قائم کی تھی جو ہفتہ کے روز کیے گئے اس بے نظیر فیصلے کی ذمہ دار ہے۔ ناقدین کا تاہم خیال ہے کہ یہ حکومتی اقدام بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی باگ ڈور کو مکمل طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے وفاداروں کے حوالے کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ میں ان تمام شکوک و شبہات کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ تحقیقات جاری ہیں جن کے نتیجے میں مزید گرفتاریاں اور نظربندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اسی تناظر میں بدھ آٹھ نومبر کو شاہی خاندان کے بعض دیگر افراد اور انتظامیہ کے ارکان سمیت مزید گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔

یہ حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں سے سعودی حکومتی اداروں اور کاروباری حلقوں میں بدعنوانی کی شکایات موجود رہی ہیں۔ سعودی حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات تاریخی تناظر میں سعودی عرب کی معاشی اصلاحات کی جانب صحیح قدم دکھائی دیتے ہیں۔

سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المعجب کے مطابق تمام نظربند حضرات کو قانونی سہولیات اور حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ ان سے تفتیش کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے اور عدالتی عمل شفاف اور کھلے عام کیا جائے گا۔ مگر انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ذرائع ابلاغ کو عدالتی کارروائی نشر یا شائع کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ ان کے بیان کے مطابق سعودی انسداد بدعنوانی مجلس نے اب تک کی خفیہ تحقیقات کے نتیجے میں بیش بہا شواہد جمع کیے ہیں جن کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نظر بند افراد کے کاروباری اداروں کو ان کے ذاتی افعال سے الگ رکھا گیا ہے اور ان کے کاروباری اثاثے منجمد نہیں کیے گئے۔ تاہم ذاتی اثاثوں کا انجماد عدالتی فیصلوں تک برقرار رہے گا۔ جمعرات نو نومبر کو المعجب کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق حراست میں لیے گئے سات افراد کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم 201 دیگر سے تفتیشی عمل جاری ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ یہ حکومتی اقدام بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی باگ ڈور کو مکمل طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے وفاداروں کے حوالے کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت ایسے ملزمان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اور ان اقدامات کے شاہی خاندان کے باہمی تعلقات اور ملکی سیاسی صورتحال پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ کیا سعودی عرب کا شاہی خاندان اس بے مثال انتشار سے نکل پائے گا؟ کیا محمد بن سلمان تمام شہزادوں، قبائلی عمائدین اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ سعودی عرب اس وقت کسی بھی اندرونی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یمن کی جنگ، حوثی باغیوں کے میزائل حملے، لبنان، شام اور عراق میں ایرانی مداخلت اور سعودی مخاصمت فرمانروا کی مکمل توجہ کی طالب ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ کی مداخلت کی وجہ سے لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا استعفیٰ سعودی حکومت کے لیے نازک وقت میں ایک اور امتحان کا درجہ رکھتا ہے۔

ترکی ان تمام حالات کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے  لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں بھی  کسی قسم کی کوئی دک اندازی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ترکی علاقے میں امن کا خواہاں  ہے اور امن کے قیام کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اپنی جدو جہد کا بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔



متعللقہ خبریں