ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 24

ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 24

793326
ترکی یوریشیاء ایجنڈہ ۔ 24

پروگرام "ترکی یوریشیاء ایجنڈہ" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  نے ماہِ  مئی میں بھاری ڈپلومیسی ٹریفک چلائی۔ اس ڈپلومیسی ٹریفک کا ایک اہم حصہ صدر ایردوان کا دورہ بھارت تھا۔  ہم بھی اپنے آج کے پروگرام میں صدر ایردوان کے دورہ بھارت کا جائزہ لیں گے۔ اس سلسلے میں اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جمیل   دوعاچ اپیک کا  تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

 

ترکی اور بھارت کے باہمی تعلقات کو فروغ دینا ترکی کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کا ایک اہم موضوع ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان کا دورہ بھارت ترک خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے میں  نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے اسمبلی ممبران  کا صدر ایردوان کے ہمراہ ہونا بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اس پہلو میں ہم اس اشارے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ   نئی ٹرم میں صدر ایردوان کی داخلہ و خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔

 

بھارت ایک بلین سے زائد آبادی کا حامل ملک ہے۔ اسے بحرِ ہند پر قدرتی حاکمیت حاصل ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے یہ ملک  عرب دنیا اور ملائی  کے درمیان ایک ٹرانزٹ مقام پر ہے۔ بھارت کی  ایک وسیع نسلی ساخت کے اندر  ترک عناصر  کے ساتھ ساتھ دیگر نسلی ساختوں سے منسوب مسلمان بھی موجود  ہیں۔  ملکی نظام 7  اضلاع اور 28 فیڈریشنوں  کے ساتھ چلایا جا رہا ہے اور ملک میں 22 مختلف زبانیں استعمال کی جاتی ہیں۔ کثیر الثقافتی اور کثیر السان ملک بھارت اور ترکی کے درمیان تعلقات ماضی میں بہت پیچھے کی طرف جاتے ہیں۔ جمہوریہ ترکی کی صدارتی مہر میں بھارت  میں قائم ہونے والی ترک بابر شہنشاہیت  کی نمائندگی  ایک ستارے  کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس وقت بھارت میں تقریباً 30 ملین کے قریب ترک النسل باشندے موجود ہیں۔

 

بھارت سنجیدہ سطح پر قوت خرید  کی مالک ، 200 سے 300 ملین صارفین  والی  اور مستحکم ماکرو اقتصادی ساخت  والی منڈی ہے۔ ترکی اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم میں اضافہ ریکارڈ  کیا جا رہا ہے تاہم دونوں ملکوں  کے درمیان  تجارتی حوالے سے دیکھنے پر جو فریق فائدے میں نہیں ہے وہ ترکی ہے۔ بھارت کی 200 سے زائد کمپنیاں ترکی میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں لیکن ترکی کی بھارت میں سرمایہ کاری بہت کم شرح میں ہے۔ اپنی اقتصادی بڑھوتی کی موجودہ رفتار کو جاری رکھنے کی صورت میں بھارت سال 2030 میں دنیا کی دوسری بڑی ترین اقتصادی طاقت ہو گا۔ ترکی، یورپ اور مشرق وسطی میں تجارت کے لئے  بھارت  کا ایک اہم ساجھے دار ہو سکتا ہے ۔ دنوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.5 بلین ڈالر ہے جو ناکافی ہے۔ اس تجارتی حجم کا مختصر مدت میں 1 بلین ڈالر تک پہنچنا مفید ہو گا اور اس حوالے سے ہم دونوں ملکوں میں ایک عزم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

 

بھارت میں اس وقت کسٹم کی سطح بلند ہے۔ ملک لبرل ازم کے لئے اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کے باوجود بھاری کسٹم کے ساتھ مقامی صنعت کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت کی عالمی تجارتی تنظیم  کے ساتھ اتفاق رائے کے دائرہ کار میں حکومت نے خام مادوں کی درآمد میں ٹیکسوں کو 10 فیصد اور تیار مال کی درآمد میں 20 فیصد کمی کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ تاہم متعدد مصنوعات پر ضمنی ٹیکس لگائے گئے ہیں جس کی وجہ سے کُل ٹیکس مذکورہ سطح سے کافی حد تک بلند ہے۔ ضمنی ٹیکسوں کو شامل کرنے سے مصنوعات کا کسٹم دو گنا ہو  سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بینکنگ سسٹم  میں کوئی سمجھوتہ تا حال موجود نہیں ہے۔ ترک بینکوں کی طرف سے وصول کئے جانے والے  گارنٹی لیٹر قبول نہیں کئے جا رہے۔ نمائندہ  بینک کی عدم موجودگی سے مسائل کا سامنا  ہو رہا ہے اور رابطہ بینکوں  کے ساتھ کئے جانے والے تجارتی کام نہایت مہنگے ہیں۔ بھارتی بینکوں سے آنے والے لیٹر آف کریڈٹ میں بہت زیادہ تفصیلات ہوتی ہیں اور ان کا کام بہت طویل چلتا ہے۔ اقتصادی تعلقات  میں  فروغ کے لئے ان مسائل کا حل ہونا ضروری ہے۔ بھارت میں خاص طور پر تیزی سے بڑھتا ہوا اسلام فوبیا کمیونٹیوں کے درمیان گہری دراڑیں پیدا کر رہا ہے۔ اس معاملے میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان کے دورہ بھارت سے ترکی۔بھارت تعلقات ایک تیز رفتار ترقی کے مرحلے میں داخل ہوں گے علاوہ ازیں یہ دورہ بعض مثبت پیش رفتوں کی بھی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ مثلاً بھارت اور پاکستان کے درمیان ڈائیلاگ کے نئے مرحلے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ بھارت اور چین کے باہمی تعلقات  میں کردار ادا کر سکتا ہے۔  مسئلہ کشمیر کو پہلے کنٹرول میں لئے جانے اور اس کے بعد حل کے راستے پر ڈالنے  کے لئے خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔ ترکی ،بھارت  میں امریکہ اور روس  کی پوزیشن کو ایک متوازن شکل میں لا سکتا ہے۔ ترکی اس سب کو کر سکنے کی صلاحیت کا حامل ملک ہے ۔ بھارت میں ایک بھاری مسلمان آبادی اور ماضی میں بھارت میں قائم ہونے والی ترک حکومتوں سے باقی بچنے والے آثار ترکی کی اس صلاحیت  کو تقویت دے رہے ہیں۔ اضافی طور پر ترکی کو بھارت کے ساتھ مستقبل میں کئے جانے والے تمام سمجھوتوں اور شراکت داریوں میں پاکستان اور افغانستان کے توازن کا دفاع کرنے کی کوشش کرنا  چاہیے۔ اس توازن کو نگاہ میں نہ رکھے جانے کی صورت میں علاقے میں ترکی کے یہ دو پرانے دوست ملک  آزردہ ہو سکتے ہیں۔

 

ترکی اور بھارت کے درمیان دو سال میں ایک دفعہ اعلیٰ سطحی  اور دو طرفہ شکل  میں دورے مفید ثابت ہوں گے۔ یہ دورے محض اعلیٰ سطح پر ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر ہونے چاہئیں۔ موجودہ سے زیادہ ماہرین کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ اس دائرہ کار میں  مشترکہ کانفرنسوں کا انعقاد کیا جانا چاہیے  اور دونوں ملکوں کی دلچسپی کے معاملات  کے بارے میں زیادہ نشر و اشاعت کی جانی چاہیے۔ حاصل کلام یہ کہ بھارت اپنے محل وقوع ، آبادی، وسائل  اور اقتصادیات  کے ساتھ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ملک ہے اور ترکی بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات  کو ہر شعبے میں فروغ دینا جاری رکھے گا۔



متعللقہ خبریں