قدم بہ قدم پاکستان - 25

آئیے! آج آپ کو دائی انگہ کے مقبرے پر لئے چلتے ہیں

758672
قدم بہ قدم پاکستان  - 25

آئیے! آج آپ کو دائی انگہ کے مقبرے پر لئے چلتے ہیں۔

دائی انگہ کا اصل نام زیب النساءتھا۔ وہ مغل بادشاہ ،شاہ جہاں کی دائی تھی۔ دائی انگہ نسلاً مغل تھی۔ اس کا خاوند مراد خان‘ شہنشاہ جہانگیر کے دور میں بیکانیر راجستھان میں ایک عدالت کا اعلیٰ افسر تھا۔ شاہ جہاں کے دور میں دائی انگہ کو بہت عزت و احترام حاصل تھا۔

دائی انگہ کا مقبرہ جی ٹی روڈ پر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے قریب بیگم پورہ سٹاپ پر واقع ہے۔ اس جگہ کو گلابی باغ بھی کہا جاتا ہے۔ مقبرہ ایک وسیع چبوترے پر 1671ءمیں تعمیر کیا گیا تھا۔ مقبرے کے درمیان میں بڑا گنبد اور چاروں کونوں پر بلند بارہ دریاں ہیں جو مقبرے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔ مقبرہ چوکور شکل میں ہے۔ ہر سمت میں ایک دروازہ ہے۔ جس کی وجہ سے مقبرہ چاروں طرف سے ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ وسطی محراب مستطیل نما ہے جس میں پانچ اوپر اور نیچے چار طاقچے بنے ہوئے ہیں۔ محرابوں‘ طاقچوں اور چھت پر بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ مقبرے کی یہ پرانی تصویر 1884ءمیں آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے لئے اتاری گئی تھی۔

 

مقبرے میں دو قبریں ہیں۔ دوسری قبر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ دائی انگہ کے مرشد کی ہے۔ سکھ عہد میں قبروں کے تعویز اور قیمتی پتھر اتار لئے گئے تھے اس لئے اب صرف قبروں کی نشانیاں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ مقبرے کی عمارت کی چھت پر جانے کے لئے داخلی دروازے کے دائیں طرف سیڑھیاں ہیں۔ چھت پر مضبوط فصیل‘ چاروں کونوں پر بارہ دری نما برجیاں دیکھ کر آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے آپ کسی قلعہ بند مورچے میں آگئے ہیں۔ چھت پر کھڑے ہو کر آپ پچھلی طرف نظر دوڑائیں تو حضرت ایشاں‘ شرف النسائ‘ حضرت منصور کے مقبرے‘ شاہ جہاں کی تاریخی مسجد اور دیگر تاریخی عمارات دکھائی دیتی ہیں۔

دائی انگہ نے حج پر جانے سے قبل 1663ءمیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی جو مسجد دائی انگہ کے نام سے مشہور ہے۔ دائی انگہ نے مسجد کی دیکھ بھال اور دیگر اخراجات کے لئے مسجد کے ساتھ جائیداد بھی وقف کر رکھی تھی۔ مسجد میں بڑے عمدہ نقش و نگار‘ گلگاری اور پچی کاری کا بہت نفیس کام کیا گیا ہے۔ دروازوں پر قرآنی آیات اور درود شریف خط نسخ میں لکھا گیا ہے۔ شاہ جہاں کے دور کی یہ خوبصورت مسجد مختلف عمارتوں میں گھر چکی ہے لیکن ریلوے اسٹیشن سے اب بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک باغیچہ اور صحن میں حوض اور فوارہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

دائی انگہ کے مقبرے کے نیچے تہہ خانے بھی ہیں۔ پہلے بالائی سوراخوں سے تہہ خانے دکھائی دیتے تھے لیکن اب سوراخ بند ہو جانے کی وجہ سے تہہ خانے نظر نہیں آتے۔ البتہ عمارت کے عقبی حصے میں ایک راستہ تہہ خانے میں جاتا ہے۔ مقبرہ دائی انگہ زمانے کی دست برد کے باوجود عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔ جی ٹی روڈ پر میٹرو ٹرین کا ٹریک بننے کی وجہ سے مقبرے کی عمارت کو نقصان پہنچنے کے خدشے کے پیش نظر عدالت نے مقبرے کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے تک کام روکا ہوا ہے۔

مقبرہ دائی انگہ کے قریب بہت سی تاریخی عمارات موجود ہیں۔ مزار حضرت شاہ حسینؒ اور شالامار باغ بھی قریب ہے۔ آپ یہاں آئیں تو ان سب کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ آپ میٹرو ٹرین کے سفر سے بھی لطف اندوز ہوں۔

آئندہ ہفتہ تک کے لئے اپنے میزبان اجازت دیجئے۔ اللہ حافظ



متعللقہ خبریں