کیا ہم آہنگ عالمی نظام ممکن ہے؟ ابراہیم قالن

قدیم فراست ِ عقلی  کے مطابق امن و ہم  آہنگی   کے احساسات اگر انسان کے اندر موجود نہیں ہوتے تو   اس کی عکاسی بیرونی  طور بھی  کرنا  نا ممکن ہے

743250
کیا  ہم آہنگ عالمی  نظام ممکن ہے؟ ابراہیم قالن

صدر رجب طیب ایردوان  نے گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران  بھارت ، روس،  چین اور امریکہ کے علاوہ بیلجیم  میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں  شرکت کرتے ہوئے  پانچ ممالک    کا دورہ کیا۔   ہونے والے مذاکرات میں  دو طرفہ تعلقات  ، علاقائی  موضوعات   کے علاوہ  انتشار اور غیر متوازن  موجودہ بین الاقوامی   نظام  میں کچھ حد تک بہتری   کرنے ، امن کے قیام اور استحکام  کی راہ   تلاش کرنے کے بار میں غور کیا گیا۔  صدر ایردوان نے اس موقع پر  نئی دہلی  اور ماسکو  سے   بجنگ،  واشنگٹن    اور یورپی دارالحکومتوں اور دنیاکے دیگر ممالک     تک    شام کی جنگ، بین الاقوامی دہشت گردی اور دنیا میں بڑھتی ہوئی  نسل پرستی کے بارے میں  خدشات کا ظہار کیا ۔

انتشار اور  غیر منظم عالمی   نظام  کی وجہ دراصل   سیاسی اور اقتصادی حالات ہیں۔ قومی  حکومتوں کو   ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار   کرنے والی غیر متوازن   پالیسی  نے ان ممالک میں کشیدگی کو ہوا  دی ہے اور شام میں ہونے والی  جنگ  بھی اس قسم کی پالیسی ہی کا نتیجہ ہے۔

شام میں چھ سال سے جاری جھڑپوں نے جن میں   ہزاروں انسان ہلاک ہو  چکے  ہیں 21 ویں صدی کی بد ترین جنگ کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔ یہ جنگ ختم نہیں ہو سکتی  کیونکہ رقیب قوتوں کو مشرقی بحیرہ روم میں اپنے ایجنڈے اور  مفادات  کی خاطر اس جنگ کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔

 دریں اثناء افریقہ میں غربت، کرپشن اور عدم مساوات نے   ایک ناقابل حل مسئلے کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔اس  مسئلے کاحل مشکل نہیں ہے  لیکن اصل بات یہ ہے کہ دنیا کی امیر اقوام  نے اپنی امارت اور سلامتی کو بچانے کے لیے افریقہ کو ایک سامراجی براعظم اور ارزاں افرادی قوت  کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اسوقت  انسانی تاریخ کے بد ترین مہاجرین  کے بحران  کا جو مسئلہ درپیش ہے اس کا ایک اہم  اور حساس مسئلے کے طور پر  جائزہ نہیں لیا گیا  کیونکہ طاقتور ممالک جب تک خود اس سے متاثر نہیں ہوتے وہ اسے  سنجیدہ مسئلے کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہتے۔ وجہ یہ نہیں کہ  ان کے پاس مسئلے کے حل کا کوئی چارہ نہیں بلکہ وہ ہماری زندگیوں میں  ٹھوس تبدیلیاں کرنے اور اس دنیا میں ہمارے علاوہ دیگر انسانوں کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے والا حل تلاش کرنے کے خواہشمند نہیں ہیں ۔

ماضی  سے ابتک  کے دور میں    کہیں زیادہ   امیر،  تاریخِ انسانی  کے کسی بھی دور سے زیادہ   مربوط  اور   بناوٹی  ہماری   یہ دنیا ، سائنسی   تحقیقات  یا پھر مناسب   اور قابل قبول  متبادلوں    کے  فقدان  کے   بجائے  کہیں زیادہ   سنجیدہ سطح کے  مسائل  سے دو چار ہے۔ عالمی  سطح پر   اس کے مفہوم، مقصد اور استقامت     میں کمی آئی ہے۔ موجودہ عالمی نظام میں   دکھائی دینے والی بد نظمی اور افراتفری،  دراصل ہمارے  کون ہونے   اور  کیا بننے  کی تمنا  پر مبنی عدم ہم آہنگی اور عدم رواداری کی عکاس ہے۔

قدیم فراست ِ عقلی  کے مطابق امن و ہم  آہنگی   کے احساسات اگر انسان کے اندر موجود نہیں ہوتے تو   اس کی عکاسی بیرونی  طور بھی  کرنا  نا ممکن ہے۔ روح و   کمیت کی  موافقت ، توازن،   نظم ،     سیرابی اور  ہم  آہنگی ہماری  زندگی   کے   حلقے کو  ایک خاص سانچے میں ڈھالتی ہے لہذا  جنت و کرہ ارض سمیت  کائنات اور ہم انسانوں کے درمیان  امن و یکسانیت    کا بول بالا ہونے والے   نظام  کے قیام  میں معاونت فراہم کرتی ہے۔

افلاطون  نے  اپنے فلسفے اور سیاسی  ڈھانچے کو ایک مرکزی نظریے  کی حیثیت  رکھنے والی     تال میل پر   نشاط کے وقت مندرجہ بالا حقیقت کو بالائے طاق رکھا تھا۔  فلاسفر کا کام  روح و کمیت کے درمیان   قائم بنیادی   ہم آہنگی  اور  موافقت  کو   احسن  طریقے سے بیان  کرنا تھا۔

ذہانت و بصیرت   ایک ایسی  نعمت ہے جو کہ    دماغی  صلاحیتوں  کو  اجاگر کرنے  کا کام کرتی ہے ۔ افلاطون  کا کہنا تھا کہ  ایک  بہترین  ریاست کا مفہوم  موسیقی  کی طرح   ہے  جس      کے راگ   ، طرز   اور اس  کی تخلیق  ہمارے  دل و دماغ پر براہ راست اثر کرتی ہے لیکن  خیال رہے کہ اس کی تخلیق  میں  اس  کی  فطرت و ماہیت  نہ تبدیل  ہونے پائے۔

تاہم اس  فطری ماہیت کو برقرار رکھنے کےلیے ضروری ہے  کہ   اس کے تمام درستگی اور منصفانہ خواص کا لحاظ رکھا جائے۔  جعلسازی ،منافرت اور بد دیانتی  کا حامل کوئی بھی نظام  اپنا توازن جلد کھو بیٹھتا ہے  اسی طرح  انصاف کے تقاضے  معاشرتی رواداری  کا کلیدی عنصر ہیں     جن کی یکساں تقسیم   ہی اس کی موزوں  حق داری  کے معنوں میں آتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ  اگر اپنی اخلاقی  ذمہ داریاں قانونی دائرے میں پوری کرے  تو یہ اس  کی آزادی کے زمرے میں آتا ہے  ۔انسانی جسم  ہی کی مثال لے لیجیے کہ  جس میں تمام اعضا٫ اپنی ذمہ داریوں کے مطابق  کام کر رہے ہیں نتیجتاً ہمارا جسمانی نظام  ایک منظم  حالت اختیار  کر جاتا ہے  اسلامی روایات   میں السلام  اور  المیزان  ایسی تعبیرات ہیں جن    کی بنیادوں پر یہ کائنات الہی    کا کاروبار چل رہا ہے  جس کے بر عکس  اگر    اقدام اٹھایا جائے تو دنیا  میں انتشار  و عدم رواداری سمیت    لاقانونیت کا   غلبہ طاری ہونے لگتا ہے اسی طرح ہماری  سماجی و سیاسی    ضابطہ حیات  میں اختلافات  ،جنگ و جدل اور لاقانونیت    سرایت کر جاتی ہے  جس  کا نتیجہ  انا پرستی ،خود غرضی اور اضطراب کے طور پر  ہمارا سامنا کرتی ہے ۔

خوبصورتی ، امن اور آہنگ کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ قرآن کی رُو سے خدا نے کائنات کو ایک طے شدہ نظم و ضبط اور ایک طے شدہ  تقدیر کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ یہ صورتحال اس آہنگ  کے اندر موجود خوبصورتی کی بنیاد تشکیل کرتی ہے کہ جس کا مشاہدہ ہم کائنات میں ہر جگہ کرتے ہیں۔ قرآن، ہمیں سورۃمزمل میں  دعوت دیتا ہے کہ کائنات پر نگاہ ڈالیں کیا آپ کو کوئی ایک بھی عدم توازن ، کوئی ایک بھی قصور دکھائی دیتا ہے۔ انسان بھی اس کائناتی توازن کا حصہ ہیں لہٰذا ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس آہنگ و توازن کو اپنی داخلی دنیا میں بھی منعکس کریں۔ امن، توازن اور آہنگ سے تشکیل پانے والے کائناتی اصولوں  کی خلاف ورزی صرف انسانی روح  کو ہی کائی زدہ  نہیں بناتی بلکہ اس کے اطراف کو بھی ختم کر دیتی ہے۔

موجودہ دور میں عالمی نظام میں ہمیں جو بے اطمینانی عدم توازن اور توڑ پھوڑ دکھائی دیتی ہے وہ اس قدر  زیادہ  تکلیف دہ اور مضطرب کر دینے والی ہے کہ جسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس صورتحال کی سوشو۔پولیٹک اور اقتصادی وجوہات پر سیاسی ارادے اور بصیرت کے ساتھ    غور کیا جانا چاہیے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اِن حالات کی تہہ میں کارفرما اسباب پر بھی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ جو اس سیارے کے مستقبل اور انسانیت کی اجتماعیت کے لئے قائم امیدوں  کی روشنی کو گل کر رہے ہیں۔ ایک سادہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی روحوں کے اندر آہنگ ، امن  اور خوبصورتی کے اصولوں کو پائدار نہیں بناتے اس وقت تک سیاسی ساخت اور اقتصادی مساوات پر منحصر نظام قائم نہیں کر سکتے۔

 

 



متعللقہ خبریں