حالات کے آئینے میں 15
صدر ترکی نے دیار باکر میں کردوں سے بغلگیرہونے والا انتہائی اہم پیغام دیا ہے
"صدر ایردوان کے کردوں، جمہوریت کے مساوی ارکان کے طور پر بغلگیر ہونے کی نوعیت کا پیغام سن 2003 سے عمل پیرا پالیسیوں کی صنف بندی کرتا ہے اور اس صورتحال کے 16 اپریل کے ریفرنڈم کے بعد بھی جاری رکھنے کی اہمیت کا تحفظ کرتا ہے"
صدر رجب طیب ایردوان کا بروز ہفتہ دورہ دیار باکر مواقعوں اور چیلنجز کے یکجا ہوتے ہوئے ایک نئی شکل میں ڈھلتے ہوئے ایک سیاسی تاریخ کے اعتبار سے سر انجام پایا ہے۔ ایردوان کے کردوں کو جمہوریت کے مساوی شہری ہونے کے ناطے دیا گیا پیغام 16 اپریل کے ریفرنڈم سے ہٹ کر اہم نتائج پر مبنی ہے۔
صدر ایردوان نے سن 2005 میں دیار باکر کے پہلے دورے کے بعد سے ابتک جدید ترک تاریخ میں کسی دوسری سیاسی لیڈر کی جانب سے نہ اٹھایا جانے والا ایک قدم اٹھایا ہے۔ آپ نے کردوں کی ترک قوم کے مساوی اور ایک اہم مرکب کے طور پر تشریح کی ہے اور کردی معاشرے اور PKK کے درمیان ایک واضح فرق کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا، سیاسی مہموں میں اورشعبہ ہائے زندگی کے دیگر معاملات میں کردی زبان پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے لازمی اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا ، بیلٹ بکس اور قومی اسمبلی کو PKK کے لیے متبادل کے طور پر پیش کیا، وزیر اعظم کی کرسی پر کردوں کی اکثریت کے مقیم ہونے والے قصبوں اور شہروں میں معیار ِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کردوں سے مساوی حقوق کے حامل شہریوں کے طور پر بغلگیر ہونا ایردوان کے سیاسی ورثے کی کلیدی اہمیت کا ایک جزو رہا ہے۔
صدر ایردوان نے دیار باکر میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ "ہم بات کرنے والے اور قابل عمل منصوبے کو پیش کرنے کسی بھی شخص کے ساتھ بات چیت کرنے اور مل جل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری واحد شرط یہ ہے: یہ اسلحہ اندوز نہیں ہو سکتے اور نہ ملک و ملت کی تقسیم کی کاروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں" PKK کی جانب سے سلسلہ امن کو سن 2015 میں یکطرفہ طور پر نکتہ پذیر کرنے اور عوامی ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سیاسی اداکار کی حیثیت سے اپنے کردار کو کھونے سے ابتک صدر ایردوان ، مسائل کے حل کے حصول کی خاطر کردوں، جماعتوں کے سربراہان، سیاسی شخصیات، عام شہریوں ، آجروں اور دیگر افراد تک خواہش کیے جانے پر بذات خود ان تک رسائی کر سکنے کا کہتے چلے آرہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ کردوں کو PKK کے سامنے اور نہ ہی انہیں دباؤ ڈالے جانے والی مارکسسٹ ۔ لیننسٹ آئیڈیالوجی کے سامنے تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پی کے کے کو یورپی یونین اور متحدہ امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور یہ نہ صرف ترک مملکت بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات کی نفی کرنے والے کردی شہریوں کے خلاف خونخوار دہشت گردی کرتی چلی آرہی ہے۔ عوامی ڈیموکریٹک پارٹی نے PKK کی "خندق سیاست" کی حمایت کرنے کی راہ کو اپناتے ہوئے سیاسی طور پر خود کشی کی ہے اور سن 2014 کے بلدیاتی انتخابات میں حاصل کردہ بلدیات کے ملازمین، ان کے امکانات ، بجٹ و خدمات کو خطرے میں ڈالا ہے۔ ان کی کاروائیاں محض غیر قانونی سطح تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بیک وقت عوامی ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی حیثیت پر کاری ضرب لگا چکی ہیں۔ کردی شہریوں کی اکثریت کو ایچ ڈی پی اور PKK نے مایوسی دلائی ہے اور یہ اکثریت اب دباؤ اور جبر کے خلاف سر بلند کرتے ہوئے امن، سلامتی اور خوشحالی کی متمنی ہے۔
صدر ترکی نے دیار باکر میں اسی چیز کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ " جس طرح ہم ترکی کو استنبول، ازمیر، ترابزون، انطالیہ اور ارض ِ روم کے بغیر تصور نہیں کرسکتے اسی طرح دیار باکر کے بغیر بھی ہم ترکی کا نہیں سوچ سکتے۔" جمہوریہ ترکی ترکوں، عربوں اور دیگر اقوام کی حد تک کردوں کی بھی مملکت ہے۔ صدر ِ ترکی نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز جاری ہونے کے وقت کردی ہم وطنوں کے حقوق کا تحفظ اور دفاع کسی بھی صورت میں رکاوٹ کا شکار نہیں ہو گا۔15 جولائی کی بغاوت کی کوشش کے بعد سے نافذ ہنگامی حالت کے باوجود آج بھی کردی شہریوں کے مفاد لیے عمل پذیر دی جانے والی اصلاحات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ ترک حکومت دیار باکر کی تحصیل سُر میں PKK کے دہشت گردوں کی جانب سے تباہ کردہ علاقوں کی از سر نو تعمیر کے لیے اسوقت کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔
صدر ایردوان PKK کی ایک ہاتھ میں اسلحہ اور دوسری جانب قیام امن کی باتیں کرنے پر مبنی گندی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ عوامی ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کردوں کی صدا بننے کے دعووں اور ہر چیز سے قبل PKK کے نام پر بات کرنے کی نفی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بذاتِ خود جناب ایردوان کی جانب سے شروع کردہ سلسلہ امن کے دوران اور بعد میں ایچ ڈی پی، PKK پرسوالات اٹھانے اور اسے مسترد کرنے کی جسارت ہر گز پیش نہ کر سکی ہے۔
کوئی بھی حکومت پارلیمانی سیاست کی مراعات سے استفادہ کرتے ہوئے PKK کی پشت پناہی کے ساتھ اس کو مسلح حملوں کا موقع فراہم کرنے والے کسی بھی سیاسی قرار داد کی منظوری نہیں دے گی۔ یہ شمالی آئرلینڈ میں IRA، اسپین میں ETA یا پھر کولمبیا میں فارک کی مسلح جدوجہد جاری ہونے کے وقت امن یا پھر سیاسی طور پر قبول کیے جانے کے مطالبات کو بلا کسی پوچھ گچھ کے قبول کرنے کی طرح ہو گا۔
کردوں کو PKK کے مظالم سے نجات دلانا محض ان کو تسلیم کرنے اور معیار زندگی میں بہتری لانے کا مفہوم نہیں رکھتا بلکہ بیک وقت PKK کے تشدد اور ظلم و ستم سے محفوظ رکھنے کا معنی ٰ بھی رکھتا ہے۔ دیار باکر، حقاری، شرناک اور کردی نفوس کی اکثریت کے آباد ہونے والے علاقوں کے کرد شہریوں کی اکثریت PKK اور دیگرعسکریت پسندوں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمایت کرتی ہے ، کیونکہ یہ چیز ان کو معمول کی زندگی اور مستقبل کے لیے امید افزا دکھائی دیتی ہے۔
اپنے ملکوں میں دہشت گرد تنظیم کے کارندوں کو آمدورفت کی اجازت دینے والے اور ان کو ترکی کے خلاف استعمال کرنے کا ہدف بنانے والی یورپی حکومتیں، نہ صرف اپنے اصولوں کی خلاف ورزی کررہی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حزیمت کا احتمال قوی ہونے والی کسی نئی حکمت ِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ امریکی انتظامیہ، داعش کے خلاف جنگ کے نام پر PKK کے شام میں بازو ڈیموکریٹک یونین پارٹی اور عوامی تحفظ یونٹس سے تعاون کرتے ہوئے اسی غلطی کا مرتکب ہو رہی ہے، جو کہ ایک ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پی کے کے اور اس کی یورپ کے اندر یا پھر شام میں مختلف شاخوں سے تعاون کی پالیسیاں علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنگین سطح کے نتائج پیدا کریں گی۔
دریں اثناء کردوں کی ایک بڑی اکثریت غیر ملکی اداکاروں کی جانب سے ان کے اپنے ہی ملک کے خلاف ایک مہرے کے طور پر دیکھنے سے اب بہت اُکتا چکی ہے۔ نہ صرف PKK اور ایچ ڈی پی کے ترجمانوں کو سنجیدہ لینے والے اور کردوں کے PKK کے خلاف مؤقف کو نظر انداز کرنے والے مغربی میڈیا کے تیور سے بھی یہ تنگ آ چکے ہیں۔
تازہ سرویز کے مطابق کردی رائے دہندگان آئینی ریفرنڈم میں توقع سے زیادہ مثبت میں ووٹ ڈالنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ اس تجویز کردہ نظام سے کمزور اتحادی حکومتوں کے دور کا خاتمہ ہو گا، اقتصادیات میں تقویت اور سرعت آئیگی اور ملک میں توازن آئیگا۔
جناب ایردوان کا کردوں کو جمہوریہ ترکی کے مساوی ارکان کے طور پر قبول کرنے کا پیغام سن 2003 سے ابتک کی ایردوان کی پالیسیوں کا آئینہ دار ہے جو کہ16 اپریل کے ریفرنڈم کے بعد بھی اپنی اہمیت کو برقرار رکھے گا۔
متعللقہ خبریں
ترکیہ اور توانائی 21
ترکیہ میں بچت اور کفایت شعاری کی اسکیم اور توانائی کے قابل تجدید وسائل کی اہمیت