ترکی یوریشیا ایجنڈہ ۔ 03

ازبکستان کے صدر اسلام کریم اوف  کی وفات کے بعد 4 دسمبر 2016 کو  ملک میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا

699393
ترکی یوریشیا ایجنڈہ ۔ 03

پروگرام "ترکی یوریشیا ایجنڈہ " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ۔ ازبکستان کے صدر اسلام کریم اوف  کی وفات کے بعد 4 دسمبر 2016 کو  ملک میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان انتخابات سے ایک مختصر عرصہ قبل ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ازبکستان کا دورہ کیا۔ ہم بھی آج کے پروگرام میں  ازبکستان کے نئے دورا ور ترکی۔ازبکستان تعلقات پر بات  کریں گے ۔ اس سلسلے میں اتاترک یونیورسٹی  کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے محقق  جمیل دوعاچ اپیک  کا جائزہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

اپنی 30 ملین سے زائد آبادی، جیو اسٹریٹجک محل وقوع، قدیم تاریخ، وسیع ثقافتی اقدار اور اقتصادی صلاحیت کے ساتھ ازبکستان یوریشیا کے علاقے میں امن و استحکام کے قیام کے لئے اہمیت کا حامل ملک ہے۔ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریم اوف کی وفات کے بعد یوریشیاء میں نگاہیں اس ملک پر مرکوز ہو گئیں۔شہریوں نے ملک کے دوسرے صدر کے انتخاب کے لئے 4 دسمبر 2016 کو اپنے ووٹوں کا استعمال کیا۔انتخابات میں شوکت میرزیا ایف کامیاب رہے کہ سال 203 سے وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر فائز تھے اور 2 ستمبر 2016 میں کریم اوف کی وفات کے بعد صدارتی فرائض ادا کر رہے تھے۔

ازبکستان میں انتخابات سے قبل ایک اہم مذاکرات کا انعقاد ہوا۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان 17 سے 18 نومبر 2016 میں ایک وسیع وفد کے ہمراہ  ازبکستان کا دورہ کیا اور شوکت میرزیاایف کے ساتھ ملاقات کی۔

ترکی کے 1991 میں ازبکستان کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک میں تعلقات کو تیزی سے فروغ ملا۔ سال 2005 میں اقوام متحدہ  کی جنرل کمیٹی میں  ازبکستان کے آنڈیجان واقعات   پر بحث کی نشست میں  ترکی کے ازبکستان کے خلاف ووٹ استعمال کیا جس کی وجہ سے 1991 میں اچھا آغاز کرنے والے تعلقات میں سال 2005 میں جمود آ گیا۔ صدر رجب طیب ایردوان  کا موجودہ دورہ  13 سال کے وقفے کے بعد کیا گیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو دوبارہ فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ صدر ایردوان کے "تعلقات میں نیا دور" کے الفاظ  سے اور میرزیاایف کے " اب محض لفظی نہیں حقیقی معنوں میں تعاون کا وقت آن پہنچا ہے" کے الفاظ سے سمرقند میں ہونے والی یہ ملاقات   اور بھی اہمیت حاصل کر گئی ہے۔ دونوں ممالک کے رہنماوں نے آئندہ سال کے آغاز  میں ازبکستان ۔ ترکی سرمایہ  کاری فورم اور کمبائنڈ اقتصادی کمیشن اجلاس کے انعقاد کے بارے میں اتفاق رائے کا اظہار کیا۔

تاریخی روابط کے حوالے سے ازبکستان  ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے ساتھ ترکی کا قلبی تعلق پایا جاتا ہے۔  میرا خیال ہے کہ موجودہ دورے کے وسیلے سے دونوں ملکوں کے درمیان منجمد تعلقات  کے دور کا خاتمہ ہو گا اور   ترکی۔ازبکستان تعلقات میں ٹیکسٹائل، صحت، سیاحت اور چمڑے سمت  اقتصادیات، دہشتگردی کے خلاف جدوجہد اور سکیورٹی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون میں تیزی سے فروغ آئے گا۔ یقیناً  تعلقات کے فروغ میں   سول سوسائٹیوں، ذرائع ابلاغ اور اکیڈمک انجمنوں کے تعاون کا بھی شامل ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں قزاقستان کی ترکی ۔ قزاقستان  احمد یسیوی یونیورسٹی  کی طرح  ترکی۔ ازبکستان یونیورسٹی کا قیام نہایت مفید ثابت ہو گا۔  استنبول اور سمرقند میں ایک ایک کیمپس کے ساتھ "ترکی۔ازبکستان اُلو بے یونیورسٹی"ترکی اور ازبکستان کے تاریخی معلوماتی  ذخیرے  کو ترکوفون علاقے میں عملی شکل دینے  میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کی حنفی صوفیانہ  روایات سلفی انتہا پسندی کے مقابل یوریشیاء کے لئے  ایک معقول متبادل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

کریم اوف انتظامیہ  کی دو بنیادی خصوصیات ہیں ایک انتہائی اختیارات والی انتظامیہ اور دوسری سوویت سیاسی نظام  کا دوام۔ کریم اوف نے یوریشیاء میں بڑی طاقتوں کی جدوجہد کے مقابل ملک کے تحفظ کے لئے ملک کو جزوی طور پر تنہا رکھنے کی پالیسی کا راستہ اختیار کیا۔ اور یوں دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے نئی سربراہی جیو پولیٹک  للکاروں  کو ایک پرو ایکٹیو پالیسی کے ساتھ جواب دینے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

ازبکستان اپنے محل وقوع اور آبادی کے ساتھ یوریشیاء کے کلیدی اہمیت کے حامل ممالک میں سے ایک ہے۔ ازبکستان کے ساتھ تعلقات استوار کئے بغیر  ترکمانستان میں خود کو دکھا سکنا  مشکل ہے۔ اپنی ان خصوصیات کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ازبکستان ایک ایسا ملک ہو گا کہ جس کے ساتھ تعاون کے لئے علاقائی ممالک  ایک تواتر سے اس کی طرف رجوع کریں گے۔

میرزیاایف اپنی صدارت کے اولین دور میں پائیدار سیاسی تبدیلیاں کرنے سے پہلے عوام کے سماجی مسائل کو حل کرنے  اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو تقویت دینے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ امید ہے کہ میرزیاایف خارجہ پالیسی میں ہمسایہ ترک جمہوریتوں  کی طرف زیادہ رجوع کرے گا اور ایک نرم  روّیہ اختیار کرے گا۔میرزیا ایف کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلے خارجی دورے کے لئے روس کو منتخب کرنے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ، روس۔ازبکستان کے درمیان تعلقات خاص طور پر  اقتصادی شعبے کے تعلقات  کو تقویت دینے کے لئے پہلا قدم  ہو گا۔

ان کا دور ازبکستان کے لئے ایک نیا دور ہو گا۔کریم اوف نے ترک کونسل سمیت علاقائی تعاون تنظیموں  سے دور رہنے کی پالیسی کو اپنائے رکھا لیکن اب نئے دور میں اس سیاست میں تبدیلی علاقائی کرداروں  کے لئے اور ازبکستان کے لئے   فائدے کی راہ ہموار کرے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ ازبکستان میں نقد اور توانائی  کے شعبوں میں جزوی مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے خارجہ سرمایہ کاریاں اور علاقائی تعاون   یعنی ترک کونسل  حل کا راستہ ہو سکتی ہے۔

کریم اوف کے دور صدارت میں میرزیاایف  13 سال تک  وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ نتیجتاً میرزیاایف  کریم اوف دور کا ایک ورثہ کہے جا سکتے ہیں۔ یعنی تبدیلی آسان نہیں ہوگی۔ تاہم میرزیاایف  اپنے ملک اور علاقے کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اس موضوع پر تجربہ کار ہیں۔ آنے والے دنوں میں ازبکستان کا ترک کونسل کے ساتھ تعلقات کو فراغ دینا علاقے کے لئے بھی اور ترکو فون دنیا کے  حوالے سے بھی   نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ازبکستان ترکو فون  جغرافیہ کا ایک کلیدی ملک ہے۔



متعللقہ خبریں