حالات کے آئینے میں ۔ 5

شام میں فائر بندی کے دوام اور امن کے قیام کے زیر مقصد آستانہ میں ہونےو الے اجلاس پر ایک رپورٹ

662700
حالات کے آئینے میں ۔ 5

 قزاقستان کے  دارالحکومت  آستانہ میں 23  تا 24  جنوری   شام  کے حوالے سے  منعقدہ  اجلاس  کئی ایک  لحاظ سے   بعض   اقدامات کی شروعات   کا  مفہوم  بھی رکھتا ہے۔ اولین طور ہر  پانچ   برسوں سے  مخالفت کرنے والے  گروہوں   اور  شامی انتظامیہ  کے نمائندوں کا  یکجا ہوتے ہوئے   فائر بندی کو   دائمی حیثیت   دینے کے حوالے سے   ارادے کا اظہار   کرنا ایک انتہائی اہم قدم تھا۔ کیونکہ  اس سے قبل کے  جنیوا  مذاکرات  میں محض سیاسی  مخالفین  نے شرکت کی تھی اور اس نے فائر بندی کے حوالے سے غیر معقول مؤقف کا مظاہرہ کیا تھا۔ دوسرا اہم  پہلو شام  میں   حالات کو معمول پر لانے کے  لیے  علاقائی امن  و امان کے  قیام    کی خواہش  اور  کوششوں کو  منظر عام پر لایا جانا ہے۔  اس اعتبار سے ترکی،  روس اور ایران کا   مشترکہ  طور پر اقدامات اٹھانا اور   اس پر دیگر ملکوں  کی حمایت ایک نئی  پیش  رفت ہے۔ یہ صورتحال  بیک وقت   خطے میں   عمومی استحکام کے قیام کے لیے    بڑی امید  افزا   ہے۔ ایک دوسرا اہم  معاملہ  بین الاقو امی   سیاست  کے اہم  ترین مسائل میں شامل  شامی  مسئلے  کو آستانہ  میں  مذاکرات کی میز پر لایا جانا   عالمی جیو پولیٹک   طاقت   کے توازن  کے از سر نو تشکیل پانے  کے    حوالے سے  بعض   اشارے    بھی دیتا ہے۔

آستانہ  کے مذاکرات میں  شامی  فریقین کے  علاوہ  ترکی، روس اور ایران  سمیت اقوام متحدہ کے   حکام نے بھی شرکت کی، جبکہ  امریکہ نے   مبصر    ملک کی حیثیت  سے حصہ لیا۔   یہ بات  واضح ہوئی ہے کہ   یورپی یونین کے ممالک   اس نئے سلسلے کے حوالے سے'  انتظار کرو  اور دیکھو' کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس  سلسلے کا موجودہ مرحلے   تک آنا  بھی ایک    اہم  سطح کی کامیابی ہے۔ پانچ برسوں سے  جاری   اور تین لاکھ انسانوں  کے ہلاک،   لاکھوں کی تعداد میں  اپنے گھر بار کو ترک کرنے  اور وسیع پیمانے  کی تباہ کاریوں کا موجب بننے  والی     جنگ کو آخر کار روکنے میں  کامیابی حاصل  کر ہی لی گئی  ہے۔ اس   چیز میں  ترکی  کی روس کے ہمراہ  سیاسی  و سفارتی کوششوں  کا ایک بڑا عمل دخل  ہے۔ 15 دسمبر سے شروع  ہونے والے  حلب سے انخلاء کا عمل تیس دسمبر کو    شام بھر میں  فائر بندی    کے اعلان کے ساتھ  نکتہ  پذیر ہو ا اور  اس طرح  قیام  امن  کا دروازہ اب  آستانہ میں    کھولا  گیا ہے۔ ترکی نے حلب سے  شہریوں کے انخلاء  کےساتھ ہی    اٹھائے  گئے سیاسی و   سفارتی کوششوں    کے ساتھ   امن  کے قیام میں   ایک اہم   کردار کو   سنبھالا ہے۔ اس  پختہ ارادے کا ایک جانب سے  PKK اور پی وائے ڈی   کو  امن مذاکرات سے باہر رکھتے ہوئے  مظاہرہ کیا ہے  تو دوسری جانب   الا  باب    میں اپنے فوجی وجود   کے  ذریعے  اپنے تحفظ و  علاقائی  سلامتی  کے  معاملات میں  اپنے واضح مؤقف کو پیش کیا ہے۔

آستانہ میں  دو روز  تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں  تین ضامن ممالک یعنی ترکی، روس اور ایران   نے  مشترکہ طور پر جاری کردہ اعلامیہ میں    مندرجہ ذیل عوامل  کو  واضح کیا ہے۔ 1 )  شام کی ملکی سالمیت ، آزادی و حاکمیت  کی  تائید  ۔  2) شامی مسئلے کا  صرف اور صرف  سیاسی و سفارتی طریقے سے    حل تلاش کیے جا سکنے  پر اتفاق  رائے۔  3 )  فائر بندی  پر  عمل درآمد  اور اس کا  جا  ئزہ لینے کے  لیے  مذکورہ تینوں  ملکوں کے درمیان ایک سہہ رکنی میکانزم کی تشکیل۔ 4 ) مسلح مخالف گروہوں  کی  جنیوا مذاکرات میں شراکت     کو ممکن بنانا  ۔

مختصراً شام  میں  قیام  امن کے زیر مقصد آستانہ میں یکجا ہونے والے ترکی، روس اور ایران  نے   شام کی فائر بندی  کو مزید تقویت دینے  کے زیر مقصد  ایک سہہ رکنی میکانزم  کو  تشکیل  دیا ہے۔ اجلاس کے اختتام پر   فریقین  کی جانب سے' شامی سرزمین کی سالمیت ، یکجہتی، خود مختاری اور حاکمیت    سے وابستگی ' کا اعلان  کرنا   اہمیت کا حامل ہے۔  اس اعلان کے ذریعے شام  میں اوباما انتظامیہ  کی جانب سے قائم کرتے ہوئے   تعاون  فراہم کردہ   PKK۔ PYD    اور  داعش کی طرح کی     دہشت گرد تنظیموں کو علاقے میں  اپنی من مانی کرنے کی اجازت نہ    دیے جانے   کا  بر ملا  اظہار کیا  گیا ہے۔

آستانہ میں حاصل کردہ ان  نتائج  کے دائرہ کار میں   پائدار  امن کے قیام اور کسی سیاسی حل تک   پہنچنے کے  لیے  8 فروری کو  جنیوا میں  مذاکرات کے سلسلے کو جاری  رکھنے  کا اعلان کیا گیا ہے ۔ لہذا    آستانہ،   جنیوا میں  پائدار امن کے    قیام     کی زمین کو ہموار کرنے  میں  معاون ثابت ہو  سکتا ہے۔ آستانہ میں  بوئے گئے   امن کے بیج   جنیوا میں پھل دے سکتے ہیں۔  امید     یں  وابستہ کرنے   میں   اب  کوئی مضائقہ   دکھائی نہیں  دیتا۔  ہم سب  مل کر  آئندہ کی پیش رفت کا مشاہدہ کریں گے۔ اگر جنیوا میں کسی سیاسی   حل  پرمطابقت قائم کر لی گئی تو  پھر شام میں   اقوام  متحدہ کی زیر نگرانی  18 ماہ کے اندر اندر انتخابات  کرائے جانے  کی منصوبہ    بندی    کی جائیگی۔



متعللقہ خبریں