حلب کا المیہ دنیا بھر کے لیے باعثِ شرمندگی

جدید  معاشروں میں ہمدردی و  شفقت  کی مدت بھی نہایت  مختصر ہوتی ہے اور جب اس کا تعلق   مسئلہ  حلب ہونے پر حکومتیں   ایک نااہل اور ظالمانہ شکل اختیار کر گئیں

636652
حلب   کا المیہ  دنیا بھر کے لیے باعثِ شرمندگی

ابھی تک   ہزاروں کی تعداد میں  مرد، خواتین اور  بچے  حلب میں    کسی بھی وقت  فضائی  حملے  یا پھر   کسی  شر پسند      گروہ  کا ہدف بن سکنے  کے خوف  اور یخ بستہ سرد ی میں  طبی  سازوسامان و خوردنی اشیاء کے بغیر      امداد کے منتظر ہیں۔

ترکی اور روس کا تیار کردہ ،حلب میں فائر بندی کا ،سمجھوتہ کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ طے پانے والا معاہدہ ، زیرِ محاصرہ شہر میں  مقیم    اور بیرل بموں یا پھر ماہر نشانے باز  ملیشیا کے لئے ایک  آسان شکار  بنی ہوئی  خواتین  اور بچوں سمیت ہزاروں  افراد کی ایک  آخری امید  ہے۔

شام کے 5 ہزار سالہ قدیم شہر حلب کا  مغلوب ہونا اور اسد انتظامیہ کے ہاتھوں وحشیانہ انداز میں توڑ پھوڑ اور تباہی و بربادی کا نشانہ بننا دنیا کو شدت سے جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی صورتحال ہونا چاہیے تھی لیکن اس کی جگہ، انسانوں کے دکھ و تکلیف  کو دِکھانے اور سماجی رابطوں  کی ویب سائٹس  کے ذریعے براہ راست نشر  کئےجانے والے، خوفناک مناظر سے  ایک دفعہ پھر لاپرواہی برتی گئی۔ اس لاپرواہی کی وجہ سے  ہماری نام نہاد مہذب دنیا   ایک دفعہ پھر اخلاقی فقدان ، بربریت، شرمندگی  اور  ندامت  کی گہرائیوں  میں غرق ہو چکی  ہے۔

حلب میں ڈھائے جانے والے مظالم کے مقابل دنیا کی، کانوں کو بہرہ کر دینے کی حد تک، خاموشی  کا مشاہدہ کرنے کے بعد امینہ سیجیرووچ کاسلی  نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ امینہ سیجیرووچ کاسلی، آٹھ یا نو سال کی عمر میں ہونے کے وقت  بوسنیا جنگ سے  زندہ بچنے میں کامیاب   رہنے والے   خوش قسمت انسانوں میں  سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے اُس سیاہ دور سے گزرتے ہوئے  میں سوچا کرتی  تھی کہ ہو سکتا ہے کہ اگر دنیا کو یہ معلوم ہو جاتا کہ ہم معصوموں کو کیسے  حالات کی نذر کر دیا گیا ہے تو وہ ضرور ہماری مدد کو پہنچتی۔

تا ہم ، اب   دنیا     مشرقی حلب میں    کیا کچھ ہونے سے    بخوبی واقف ہے   تا ہم یہ اس  نسل کشی کا سد باب کرنے   میں   کسی قسم   کی حرکت   کرنے سے عار ی ہے،  یا پھر ہو سکتا ہے کہ میں   ایک سادہ لوح انسان ہونے کی بنا پر   دنیا کو  نہیں   سمجھ پائی۔

قالن لکھتے ہیں کہ اس وقت جب میں یہ سطور رقم کر رہا  ہوں تو شہریوں کے انخلاء کے لئے بسیں حلب میں داخل ہو رہی ہیں ۔  وقفے وقفے سے اس انخلاء کو تعطل میں ڈالا جا رہا ہے، ان بسوں  پر حملہ کیا جا رہا ہے یا  پھر ان سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ لیکن اسوقت   جو چیز یقینی ہے وہ یہ  ہے کہ حلب کے قتل عام  کو  تاریخ میں بالکل یہودی قتل عام، سرائیو اور روانڈا  کے قتل عام کی طرح  ایک شرمندگی و ندامت کے لمحات  کے طور پر یاد کیا جائے گا۔

ایک سال قبل ترکی کے بحیرہ ایجین  کے ساحلوں  پر  ٹکرانے والی   شامی بچے آئلان کُردی  کی نعش  کی  تصاویر نے دنیا بھر میں رائے عامہ کو متحرک کر دیا تھا۔  اس وقت  اُمید پیدا ہوئی کہ شاید  یورپ اور امریکہ کی امیر اور طاقتور دنیا کے صاحب اقتدار شامی مہاجرین اور شام میں  بے گھر ہونے والے  لاکھوں انسانوں  کے دکھ و تکلیف کو ختم کرنے کے لئے کوئی اقدام  اٹھائیں  گے۔

 اس سے ملتی جلتی توقعات نے    ایک دوسرے شامی بچے     اورمان داقیش   کے خون    و راکھ  میں  لت پت   چہرے و بدن     کے ساتھ ایک  طبی     کارکن   کے   بازووں میں  نا امیدی کے ساتھ دنیا کو دیکھنے     والے مناظر کے سوشل    میڈیا میں آنے کے بعد   جنم لیا تھا ۔  ان مناظر  نے  دنیا بھر کو ایک بار پھر ہلا کر  رکھ دیا تھا۔

لیکن بڑے  افسوس سے  کہنا پڑتا ہے کہ جدید  معاشروں میں ہمدردی و  شفقت  کی مدت بھی نہایت  مختصر ہوتی ہے اور جب اس کا تعلق   مسئلہ  حلب ہونے پر حکومتیں   ایک نااہل اور ظالمانہ شکل اختیار کر گئیں۔

ایسا لگتا ہے کہ انسانی دکھ درد کی عکاس کوئی بھی تصویر ، ویڈیو ریکارڈنگ  یا پھر  دلیل ،  دنیا کو لازمی اقدامات اٹھانے     پر آمادہ  یا پھر  بیدار کرنے  میں    معاون  ثابت نہیں ہو سکے گی۔

ایک جانب سے  اس خوفناک  جنگ  کے  اخلاقی و نفسیاتی     ہرجانے    کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے   کی کوشش کے وقت دوسری جانب    ہم    حقیقی  ۔ سیاست کے  خلاف سر د مہری کے حقائق کے ساتھ    مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔

ترکی اور روس کی جانب سے     تیار کردہ    فائر بندی  کا معاہدہ   چند فریقین کے شامل ہونے    والے  اور کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے   مذاکرات  کے نتیجے میں   سامنے  آیا۔   جس کا مقصد   ملکی انتظامیہ  کے  بھاری  اسلحہ  سے حملوں  کی زد میں ہونے والے  مشرقی حلب   کے عوام کو  ترکی  کی سرحدوں کے جوار میں  واقع  عدلیب   کی طرح کے دیگر   با حفاظت  علاقوں کو   منتقل  کرنا تھا  اور    اب بھی ایسا ہی ہے۔   ابتک    40 ہزار سے  زائد   متاثرین  کی نقل مکانی   کو ممکن  بنایا جا سکا گیا ہے تا ہم  تا حال  ہزاروں کی تعداد میں    نہتے انسان   محفوظ  مقامات کو نقل مکانی   کیے  جانے  کے منتظر ہیں۔ ریڈ  کراس  انٹر نیشنل    کمیٹی، ترکی آفات و ہنگامی صورتحال  کا  ادارہ ، ترک ہلال ِ احمر، انسانی امدادی    انجمن  اور دیگر شہری  تنظیمیں   اپنے گھر بار کو کھونے والے    لاکھوں شہریوں کو عدلیب میں    خوراک ، ملبوسات اور طبی سازو سامان     کی ترسیل کے   لیے دن رات  بر سرِ پیکار  ہیں۔

فائر بندی کا معاہدہ   اسوقت     علاقے میں  پیش   آنے والے  واقعات  کے سامنے ایک نازک   دھاگے     کی  حیثیت    کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مشرقی حلب میں   فتح کے     بعد   جسارت   حاصل کرنے والی اسد انتظامیہ اور ایران    کا تعاون ہونے والے   ملیشیا  گروہوں سمیت   ملکی انتظامیہ   حمایتی  عناصر مخالفین سے   انتقام  لینے     کی ٹھان سکتے ہیں ، یہ   اس چیز کو فائربندی  کے معاہدے  اور  نقل مکانی  کے عمل کو آئندہ  کے ایام میں سبو تاژ  کرتے ہوئے   کر سکتے ہیں۔

صدر  رجب طیب ایردوان   نے  حلب میں  باقی ماندہ لوگوں  کو  مزید تاخیری اور  زیادہ  ہلاکتوں اور مظالم  کا  سامنا کرنے  کا موقع فراہم  کیے  بغیر     منتقل کرنے  کے زیر مقصد  روسی صدر ولا دیمر    پوتن سے    کئی  بار مذاکرات کیے ہیں۔

اقوام متحدہ   حلب   کی اس  شرمناک  تصویر   کے  سامنے    کمزور  اداکاری کو  جاری رکھے ہوا ہے۔  اب کوئی بھی شخص قرار دادوں اور اعلانات   کے  ساتھ   بے انصافیوں  کا سد باب   نہ کرسکنے والے یا پھر درپیش   اضطراب  کو کم  نہ کر سکنے والی     ان     عالمی تنظیموں سے در حقیقت  کسی قسم   کی کوئی توقع وابستہ نہیں کرتا۔   عوام الناس ، اپنے آپ کو اقوام کے اتحاد کی  نمائندگی  کرنے     کا دعوی کرنے والے   کسی ادارے   سے کم از کم       معمولی سطح کی انسانی مفاہمت  کا مظاہرہ  ہونے  کی امید رکھتے  ہیں۔  تا ہم ،  اس چیز کو  حلب میں  بڑی  ہی بے دردی سے اپنی جانوں  سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے   حلب کے عوام    کے لیے  بھی  نہیں کیا   جا رہا۔

اگر اقوام متحدہ  اور یورپی سلامتی کونسل   کے با اثر  ارکان   اور  اداکار  حلب کے واقعات   کے کس طرح وقوع پذیر ہونے  اور  اس  ابتر  صورتحال سے دو چار ہونے کے بارے میں  تجسس رکھتے ہیں تو انہیں  پیچھے مڑتے ہوئے سن 2012    سے ابتک  کس طرح  کے اقدامات  اٹھانے    کو دیکھنا  چاہیے۔  لیکن  دیکھیں  بھی تو کیا نکلے  گا، کچھ  بھی نہیں۔

ترکی  کے شام میں حفاظتی  مقامات قائم کرنے  کی اپیلوں پر کان نہ دھرے گئے۔ اوباما انتظامیہ   نے  اپنی سرخ پٹی کو کیمیائی ہتھیاروں  اور دیگر  ذہن میں آسکنے والے ہر  طرح کے جنگی  حربوں  کے استعمال    کے خلاف    محض  نگلا ہی  ہے۔ یہ اب دوسروں پر الزام تراشیاں کرنے اور  سوگ منانے  کے  بجائے      کم ازکم  اسد انتظامیہ کی جانب سے  روزانہ کیے جانے والے   مظالم  میں  گراوٹ کانے اور شامی مخالفین   کو  دیے گئے وعدوں کو پورا  کرنے کے  لیے  کوئی اقدام  اٹھا  سکتا تھا۔ تا ہم  اس  نے ،  ان  اقدامات  کے بجائے  ڈپلومیسی  کرنے پر ہی اکتفا کر رکھا ہے۔  اس نے   ایک جانب حلب  اور شام     کے بچوں و خواتین کو نجات دلانے  کے لیے    کوئی ایک قدم  تک نہیں  اٹھایا تو دوسری جانب  اسد انتظامیہ اور  اس کے اتحادیوں کو   مہلت ملنے اور   جنگ کے ماحول کو اپنے مفادات  میں  بدلنے    کی اجازت   دی ہے۔

امریکہ کی جانب سے  غلط  طریقے سے     راہ دکھائی گئی    PKK کی  شام میں  شاخ  پی وائے ڈی   سے تعاون کرنے کی پالیسیوں   نے محض   اس  دہشت گرد تنظیم کو مزید   طاقت اور جسارت  دلائی ہے۔  دو    برس قبل   18 نومبر   سن 2014  کے روز میں نے مندرجہ ذیل  سطریں    قلم بند کی تھیں:" شام  کے دوسرے بڑے شہر حلب  پر اسد انتظامیہ کا قبضہ محض    ایک وقت کا معاملہ ہے۔ امریکی  قیادت کی اتحادی قوتیں  داعش  کے  اہداف پر فضا سے حملے کے وقت   مسڑ اسد  حلب میں  خونی حملوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔  گزشتہ دو  ماہ کے اندر   اسد قوتوں نے اس شہر پر حملوں میں   حد درجے تک اضافہ کیا اور شہر پر  فضائی و بری  کنٹرول کو وسعت دی اور شامی باغیوں کو شمالی علاقوں کو دھکیل دیا۔  سقوطِ حلب کو  شامی جنگ میں ایک دوسرے  کالے دھبے کی  ماہیت اختیار کرنے سے قبل   بعض ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔  اگر اس شہر کے سقوط  کی اجازت دے دی گئی تو یہ شام میں انسانوں کے مستقبل  کے لیے    پائی جانے والی امیدوں پر پانی پھیر دے گا۔"

ہم ایک  طویل مدت سے اس امید کو کھو دینے کی مانند  دکھائی دیتے ہیں۔



متعللقہ خبریں