ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔51

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔51

634501
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔51

آٹھ ماہ قبل ہی  شامی ڈاکٹر اسامہ ابو ال عاز نے درد ناک آواز میں چیخ چیخ کر یہ کہا تھا کہ  حلب میں   تابوتوں کی شدید قلت پائی جاتی ہے  ۔ہماری مدد کی جائے ۔

اپریل 2016 کے بعد حلب میں مخالفین کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہنا موت کے منہ میں رہنے کے مترادف تھا ۔  معافی کی عالمی تنظیم نے 2016 کے ابتدائی مہینوں میں  جو رپورٹ شائع کی ہے  اس  میں  اہم معلومات موجود ہیں ۔ رپورٹ کیمطابق روس اور اسد قوتوں کے جنگی طیاروں  نےجان بوجھ کر  منصوبے کے تحت ہسپتالوں اور طبی مراکز پر بمباری کی ہے ۔ فائر بندی کے اعلان سے پہلے اور بعد میں روسی اور شامی طیاروں نے منظم طریقے سے ہسپتالوں اور کلینکوں  پر بمباری  کرتے ہوئے انھیں تباہ کیا  ہے ۔معافی کی عالمی تنظیم کے اہلکاروں  کیمطابق طبی اداروں اور   اہلکاروں پر یہ حملے جنگی حکمت عملی کا ایک حصہ تھے  جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھے ۔ روس اور اسد قوتوں نے سب سے پہلے الیکٹرک پاور اسٹیشنوں ،ہسپتالوں اور پینے کے پانی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔  جس کا مقصد عوام کو شہر ترک کرنے پرمجبور کرنا تھا ۔

حالیہ پانچ برسوں میں شام میں سینکڑوں ڈاکٹروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے ۔  انسانی حقوق کی ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کی تحقیقات کیمطابق   اپریل 2016 کے بعد شام میں تقریباً 730 ڈاکٹروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے ۔   اسی عرصے میں 269 طبی مراکز پر 382 بار بمباری کی گئی ہے ۔اس تحقیق کے شائع ہونے کے بعد ماہ دسمبر میں مزید 54 بار بمباری کی گئی  ۔   روس اور شامی جنگی طیاروں نے بمباری کو اپنا روز مرہ کا معمول بنا لیا ہے ۔

اس ہفتے شامی قوتوں نے حلب  کو  مکمل طور پر  اپنے کنٹرول  میں لے لیا ہے ۔ اس وقت مغربی ممالک پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔  مغرب کی شام سے متعلق پالیسی  کی ناکامی انتہائی واضح ہے ۔  برطانیہ کے سابق وزیر خزانہ اور کنزرویٹو پارٹی   کے پارلیمانی نمائندے جارج اوسبورن نے دارالعوام میں خطاب کے دوران   عالم مغرب کے بارے میں یہ جملے استعمال کیے ۔

انھوں نے کہا کہ اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شام کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہ تو  یہ سوچ  اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔  حلب کا المیہ مغربی ممالک ،امریکہ اور روس کے طرف سے پیدا کیے گئے  خلاء کا ثمرہ ہے ۔

 اسی طرح دو ہفتے قبل جرمن فیڈرل مجلس  میں شام کے موضوع پر ہونے والے اجلاس  سے خطاب کرنے والے جرمن فیڈرل مجلس کے خارجی امور کے کمیشن کے سربراہ نور برٹ روٹگین نے کہا کہ  حلب، مغربی خارجہ پالیسی   کی حالیہ چند برسوں کی بد ترین  مثال ہے ۔

دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی طرف سے ہونے والی نسل کشی کے دوبارہ منظر عام پر نہ آنے  کے بیانات دینے والے اپنے بیانات کو جلد ہی بھول گئے ہیں ۔ نازیوں  کے مظالم جیسے مظالم کا سامنا فلسطین،بوسنیا،روآنڈہ ،حلپ چے اور حلب  کے عوام کو کرنا پڑا ہے ۔  2013 میں اسد انتظامیہ  کے  اپنے ہی عوام کیخلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے اعلان سے  ریڈ لائن  کو پار کر لیا ہے ۔ مغربی ممالک نے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے  والی اسد انتظامیہ کیخلاف کوئی قدم نہ اٹھایا ۔ستم یہ کہ روس نے  اپنے کھیل کے اندرہی ایک نیا   کھیل کھیلنا شروع کر دیا  ۔یہ صورتحال اس تاریخ کے بعد ہونے والے جنگی جرائم کے دروازے کو  کھولنے کا سبب بنی ۔

روسی قوتوں کی حمایت کے بعد اسد قوتوں نے حلب پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا لیکن   یہ صورتحال اسد انتظامیہ کے طاقتور ہونے کی نشانی نہیں ہے کیونکہ  شامی قوتوں نے روس ، ایران کیطرف سے حمایت گردہ غیر ملکی ملیشیاؤں ،  عراق سے آنے والی ملیشیا قوتوں اور حزب اللہ کی حمایت کے نتیجے میں   حلب پر قبضہ کیا  ہے ۔ جب  اسد قوتوں نے حلب پر قبضہ کیا تو اسی دوران داعش نے تاریخی شہر پامیرا پر دوبارہ قبضہ کر لیا ۔

شام میں  جنگ کیوجہ سے بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہےاور سیاسی لحاظ سے بھی یہ ملک  منقسم ہو چکا ہے لیکن چار ممالک کی حمایت سے   اسد انتظامیہ اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ شامی انتظامیہ کے دعووں کے برعکس حلب آزاد نہیں ہوا ہے  بلکہ اس نے  غیر ملکی قوتوں کیطرف سے تباہ کردہ ایک شامی شہر  کی حیثیت حاصل کر لی ہے ۔ حلب پر شامی قوتوں کے قبضے کے بعد اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ اب یہاں پر گوریلا جنگ شروع ہو جائے گی اور روسی حمایت بھی اس میں کامیاب  نہیں ہو سکے گی ۔ اسد انتظامیہ کی ظالمانہ پالیسیاں اس جدوجہد کو ختم نہیں کر سکیں گی  اور گوریلا جنگ میں شدت آتی جائے گی ۔

شام میں جاری جھڑپوں کی وجہ سے ملک تباہ و برباد ہو کر رہ گیا  ہے ۔  کئی میلین انسان اپنے گھر بار ترک کرنے پر مجبور ہوئے ہیں  ۔ان حالات میں   حکومت کی  مطلق العنانیت نئی طرز کی  جدوجہد کے منظر عام پر آنے میں اہم کردار ادا کرئے گی ۔ پانچ سال سے جاری حالات نے  یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ جدوجہد 1982 کی حما جدوجہد سے مختلف ہو گی   کیونکہ نہ شامی اقتدار 1982 جیسا طاقتور ہے اور نہ ہی مسائل ایک شہر پر قبضہ کرنے سے حل ہو سکتے ہیں ۔  شام میں غیر ملکی قوتوں کی موجودگی ہر وقت اپنی ذلت کی یاد دلاتی رہے گی ۔

 مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک شام میں ریڈیکل سماجی ،اقتصادی اور سیاسی تبدیلیاں نہیں آتیں اسوقت تک موجودہ  اقتدار اور اس کے حمایتی ممالک مسائل کھڑا کرتے رہیں گے ۔



متعللقہ خبریں