راہ ترقی پر گامزن ترکی45
ترک معیشت میں بیرونی قرضوں کی صورتحال
ترقی پذیر ممالک معاشی صورت حال کی بہتری کےلیے بالواسطہ یا بلا واسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت در پیش ہوتی ہے ۔اس سرمایہ کاری کی بدولت ملک میں گردش زر میں اضافہ ہوتا ہے ،سود کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے اور عوامی معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔ دور حاضر میں قرضوں کی درجہ بندی کے عالمی اداروں کی طرف سے ممالک کی اقتصادی صورتحال سے متعلق کارکردگی کا تجزیہ کرتےہوئے منفی یا مثبت رپورٹس مرتب کی جاتی ہیں ۔ ان رپورٹس کے مثبت نتیجے میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
سن 2008 کے عالمی بحران کے منفی رحجانات کے باوجود بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی کارکردگی تسلی بخش تھی ۔
ترکی کا شمار اس وقت دنیا کی 20 ترقی پذیر معیشتوں میں ہوتا ہے جس کا ہدف سن 2023 میں دنیا کی دس بڑی اقتصادی طاقتوں میں خود کو شمار کروانا ہے۔
سن 2013 میں قرضوں کی درجہ بندی کے تین عالمی اداروں نے اپنی تجزیاتی رپورٹس میں ترکی کے بارے میں کافی حوصلہ افزا نتائج کا حوالہ دیا ۔15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد متعلقہ اداروں نے ترکی کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں منفی رپورٹ جاری کی جس کا سبب بعض غیر ملکی سرمایہ کاروں کا زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنا تھا اس کے بعد عوام نے بھی غیر ملکی زر مبادلہ مقامی بازاروں میں فروخت کرنا شروع کر دیا جس سے معشیت کو جزوی سہارا ملا اور ان اداروں نے ترکی کے معاشی کارکردگی سے متعلق پوائنٹس کو بی بی نیگیٹیو سے بی بی کر دیا ۔
نتیجتاً ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی صورت حال میں بہتری کےلیے سرمائے کی فراہمی امیر ممالک سے ممکن ہوتی ہے جس کےلیے اہم ترین ذریعہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی آمد ہے ۔ اس سرمایہ کاری کی بدولت عالمی ادارے، مختلف بینکوں اور کمپنیوں کے بارے میں اپنی رپورٹس تیار کرتے ہیں جو کہ فائدہ مند ثابت ہو تی ہے۔ گزشتہ دنوں اسٹینڈرڈ اینڈ پوورز نے ترکی کے قرضوں کے پوائنٹس کو بی بی نیگیٹیو سے بی بی کر دیا جس کے بعد امید ہے کہ دیگر ادارے بھی ایس اینڈ پی کے نقش قدم پر ترکی کے پوائنٹس میں اضافہ کر دیں گے۔ اگر سرمایہ کاری سے متعلق ترکی میں سازگار ماحول کی ضمانت دی جاتی ہے تو اس کا اثر سود کی شرح میں کمی اور ملک میں زر مبادلہ کی آمد پر ہوگا جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا۔
متعللقہ خبریں
ترکیہ اور توانائی 21
ترکیہ میں بچت اور کفایت شعاری کی اسکیم اور توانائی کے قابل تجدید وسائل کی اہمیت