ترکی کے نقطہ نگاہ سے.12

پہلی عالمی جنگ کے بعد جو ورلڈ آرڈر قائم کیا گیا اس میں ہر چیز کے  اپنی جگہ پر  ٹھیک طرح نہ بیٹھنے  کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ  شروع ہوئی

608227
ترکی کے نقطہ نگاہ سے.12

پروگرام " ترکی کے نقطہ نگاہ" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔  پہلی عالمی جنگ کے بعد جو ورلڈ آرڈر قائم کیا گیا اس میں ہر چیز کے  اپنی جگہ پر  ٹھیک طرح نہ بیٹھنے  کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ  شروع ہوئی۔ اس جنگ کے اختتام پر یالتا میں برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل ، امریکہ کے صدر روزویلٹ اور سوویت یونین  کے صدر سٹالن نے کئی روزہ  اجلاسوں کے بعد نئے ورلڈ آرڈر  کو قائم کیا۔  اس ورلڈ آرڈر کا خاتمہ 1991 میں سوویت اتحاد  موجودہ رشئین فیڈریشن کے صدر گورباچوف  کی طرف سے اعلان کردہ  گلاسنوسٹ اور پریسٹورائکا فارمولوں  کے ساتھ ہوا۔

اس طرح  مشرقی بلاک ختم ہو گیا۔ وارسا پیکٹ منتشر ہو گیا  ۔ متعدد سوشلسٹ انتظامیہ والے ممالک ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور امریکہ کی زیر صدارت مغربی کلب حقیقی معنوں میں دنیا کا واحد سربراہ بن گیا۔ سوویت یونین کے بکھرنے سے دنیا کا توازن خراب  ہو گیا۔ اس سے قبل نمائندہ جنگوں کی عملی قبضوں اور داخلی جھڑپوں  کو شروع کروا کے مائیکرو حکومتیں قائم کی گئیں۔ لیکن قائم کی جانے والی یہ مائیکرو حکومتیں  قانونی اعتبار سے بھی ، جغرافیائی اعتبار سے بھی اور سوشیالوجک اعتبار سے بھی پُر مسائل اور جھڑپوں  کی شکل میں قائم کی گئیں۔

امریکہ کی پیش کردہ  قبضے کی نئی  حکمت عملی یعنی  "سدباب کی جنگ" کی تھیوری کے ساتھ صومالیہ، افغانستان اور عراق پر عملاً قبضہ کر لیا گیا۔ پانچ بھائیوں پر مشتمل ایک واحد کنبہ صومالیہ، ہرگیسے، پُٹ لینڈ، صومالی لینڈ، موغادیشو اور غیر یقینی علاقے  کی شکل میں پانچ حصوں میں تقسیم کر دئیے گئے۔

عراق جنوبی شعیہ ، وسطی سنّی، شمالی کرد اور متنازعہ علاقوں  کے ساتھ چار حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ تاہم موجودہ مقام پر امریکہ کی "سدباب  کی جنگ"  کی تھیوری نے خاص طور پر عالم اسلام کو مکمل معنوں میں خون ، آنسو، تشدد   اور اموات  کی اماجگاہ بنا دیا ہے۔ امریکہ کی اس تھیوری کی وجہ سے1991 سے لے کر اب تک عالم اسلام میں 5 ملین کے قریب مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا، 15 ملین افراد زخمی ہو گئے اور 7 ملین کے قریب مہاجر بن گئے۔ تاہم داخلی ہجرت کے اعداد و شمار  کئی ملین تک جاتے ہیں۔

جبکہ شام میں  ہر منٹ میں عورتوں، بچوں اور  بوڑھوں کی تفریق کئے بغیر شہریوں کو  ہلاک کیا جا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ "سدباب کی جنگ" کی تھیوری عالم اسلام کے لئے ایک تباہی و بربادی کی تھیوری ہو گئی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ کے اس طرح شیطانی انداز میں دنیا کو   آگ میں جھونکنے کے خلاف اقوام متحدہ  کی سلامتی کونسل کی طرف سے ایک بھی فیصلہ جاری نہیں ہوا۔

فلسطین حقیقی معنوں میں اسرائیلی فوج کی مشقوں اور نئے اسلحے کی تجربہ گاہ بن گیا ہے۔ اس صورتحال میں  جمہوریہ ترکی کی حکومت نے  صدر رجب طیب ایردوان  کی ہمراہی میں پرانے نمونوں کو چھوڑ کر "نیا ترکی" بننے سے پوری دنیا کو آگاہ کیا۔

خاص طور پر صدر ایردوان نے شروع کردہ مغربی انسانی حقوق کے جائزوں سے بھی بڑھ کر جمہوری اصلاحات کیں۔ متعدد مغربی یورپی ممالک  سے زیادہ انسانی حقوق اور  اظہار بیان کی آزادیوں کے ساتھ ساتھ  اقتصادیات کے اصولوں کا بغیر کسی نقص کے اطلاق کر کے پورے ملک کو ایک تعمیراتی شکل دی گئی اور اس طرح سینکڑوں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس طرح ترکی کو ہر شعبے میں جاذب ملک بنایا گیا۔ خاص طور پر زمینی فضائی ا ور بحری رسل ورسائل میں چند سالوں میں جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں کئی  گنا  زیادہ ترقی سامنے آئی۔ اس نوعیت کی انسانی و اقتصادی سرمایہ کاریوں سے صدر  ایردوان  ترکی  کو جمہوریت اور اقتصادیات کے  شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک کی توجہ کی اوّلین صفوں میں لے گئے۔

آتشی چیمبر میں آئے ہوئے نئے ترکی اور اس  کے بانی لیڈر نے بندھے بندھائے  عالمی  نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور" دنیا پانچ سے بڑی ہے" کے سلوگن سے دنیا کو آگاہ کیا۔ اس طرح کے الفاظ  کی ادائیگی سے پوری دنیا کے عوام اور سیاسی حلقوں کی نگاہیں صدر ایردوان پر مرکوز ہو گئیں۔

خون، آنسو  اور آگ کے چیمبر  میں تبدیل ہونے والے نئے ورلڈ آرڈر کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ایردوان کے ترکی نے اس سلوگن کے ذیل کو 2023، 2050 اور 2071 کے اہداف کے ساتھ پُر کیا۔ یہ پروجیکٹ خواہ کیسے ہی ترکی کے لئے قائم کردہ  دکھائی دیتے ہوں اصل میں انہیں آسانی کے ساتھ  ، پہلے ترکی اس کے بعد ہمسایہ ممالک اور اس کے بعد پوری دنیا کو نگاہ میں رکھنے والے پروجیکٹ کہا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر افریقہ کے لئے جتنی  بھی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور اس خطّے میں جتنا بھی کام اور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے وہ "استحصالی وائٹ مین" ذہنیت کے ساتھ نہیں بلکہ ترکوں کی خاص طور پر سلجوقی اور عثمانی سلطنتوں  کے دور سے لے کر اب تک چلتے چلے آنے والے طرز فکر یعنی "کمانے اور مساوی شرائط  اور برابری کے اصول"    کے تحت کی گئی ہے۔

صدر ایردوان نے ترکی کے سامنے2023 کا جو ہدف پیش کیا ہے وہ تقریباً  7 سال کے بعد عملی شکل اختیار کرے گا۔ اس پروجیکٹ کے مطابق زیادہ خوشحال ترقی سامنے آئے گا اور اس خوشحالی کو ہمسایوں کے ساتھ امن وامان کی فضاء میں بانٹا جائے گا۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے خاص طور پر 2071 کے ترکی کے لئے موزوں اور منصوبہ بندی کئے گئے مستقبل کو اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس مستقبل کا مقصد ایک ایسی دنیا تشکیل دینا ہے جس میں  طاقت ور کمزور پر ظلم نہ کر سکے  اور اس کا مقصد  اس انصاف پسند دنیا کے امن و امان کا ضامن بننا ہے۔ یقیناً یہ سب واحد شکل میں کرنے جیسے کسی شہنشاہیت کے حامل  منصوبے کی بات نہیں کی جا رہی  کیونکہ نئے ترکی  کے ان  تمام منصوبوں کا مقصد طاقتور اور کمزور ساجھے داروں  کا مل کر امن منصوبے کا ضامن ، ساجھے دارا ور ذمہ دار ہونا ہے۔

اس کے پہلی مثال شام کے لئے کئے گئے آپریشن کے ساتھ دکھائی گئی۔ سال 2013 سے لے کر اب تک امریکہ سمیت متعدد ممالک دہشت گرد تنظیم داعش کو شکست دینے کے لئے شام پر بمباری کر رہے ہیں۔ لیکن ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے باوجود امن شام کے لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک خواب ایک خیال ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن صدر ایردوان کے ترکی کی فوج نے شام میں داخل ہونے کے پہلے ہفتے سے ہی اپنے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں امن و امان قائم کیا۔ یہ فوج شہروں کا دفاع کر رہی ہے۔ نتیجتاً علاقے سے ہجرت کرنے والے عوام دوبارہ اپنے گھر بار کی طرف لوٹ آئے۔ اسکولوں نے تعلیمی کاروائیوں کو دوبارہ سے شروع کر دیا ہے۔ عبادتگاہیں، بلدیہ اور سول خدمات نے دوبارہ سے کام  کرنا شروع کر دیا ہے۔ ترکی نے یہ سب کامیابی چند ٹینکوں اور چند سو فوجیوں کے ساتھ حاصل کی ہے۔ تاہم ترک فورسز اور فوجی اس آپریشن کے  منصوبے کو منّظم کرنے والے تھے۔ آپریشن میں ہزاروں شامی مخالفین  نے شرکت کی۔ترکی کے ساتھ مشترکہ شکل میں داعش کے خلاف آپریشن کرنے والے شامی مخالفین نے اب زیرِ کنٹرول  علاقوں میں دوبارہ سے امن و امان قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔

یہ آپریشن جو ترکی کے لئے ایک چھوٹے  سے فوجی آپریشن کی حیثیت رکھتا ہے اصل میں اس بات کی ایک مثال ہے کہ نئے ترکی کے اہداف اور ویژن  کو کس قدر تیزی سے پھیلایا جا سکتا ہے اور کس قدری آسانی سے انسانوں کے ہاتھوں عملی شکل میں لایا جا سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں