یورپ میں مہاجروں کی زبوں حالی

یورپی یونین کے ملکوں میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی حالت زار دنیا بھر کے لیے لمحہ فکریہ ہے

585535
یورپ  میں مہاجروں کی زبوں حالی

شام  میں سن 2011 میں  چھڑنے والی   خانہ جنگی    سے راہ فرار  اختیار کرنے والے  تیس لاکھ  شامی شہریوں نے  ترکی میں  ایک نئی زندگی    قائم کی، ان میں سے بعض  تعلیم حاصل کررہے ہیں تو بعض     کام  کاج میں مصروف ہیں۔

ترکی  ان کے لیے ایک نیا وطن ثابت ہوا ہے  یہ ان کے مستقبل کا  ضامن ہے۔

اس نے  دوبارہ امید کی کرن  ثابت ہوتے ہوئے  ان انسانوں  کو زندگی کے بندھن سے بندھے رہنے کا موقع دیا۔  بعض کو رہائش کی جگہ تو  بعض کو اپنے پیشے کو جاری کرنے کے مواقع فراہم کیے،      لاچار انسانوں کو   کپڑا ، روٹی مکان دیا۔  ان تمام  خدمات کے وقت ان سے کسی قسم کی  توقع  کیے بغیر  خیراتی کام کیے۔  گزشتہ  پانچ برسوں میں  ان افراد کے لیے    دس    ارب ڈالر   کی رقوم  خرچ کیں ۔

ادھر  یورپی یونین  نے     شامی   مہاجرین کے لیے ترکی کو دو بار تین ۔ تین ارب  یورو کی امداد کا  وعدہ کیا تھا۔ ابتک ان رقوم  میں سے محض 455 ملین ہی  ترکی    کے حوالے کیے گئے۔   یہ خیال کیا جا سکتا ہے  کہ یورپی یونین   نے اپنے رکن ملکوں میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین  کے لیے  خرچ  کرنے کی سوچ کے ساتھ  ترکی کو دیا گیا  وعدہ نہیں نبھایا۔

اس  نکتے  پر  مندرجہ ذیل  اعداد وشمار پر آپ کی توجہ دلاتے ہیں۔  یورپی یونین اور ترکی کے مابین  اپریل میں    واپسی قبول  معاہدے پر عمل درآمد شروع کیا گیا۔  اس   دن سے  ابتک  یورپی یونین نے   محض  798 شامی مہاجرین کو پناہ دی۔  حالانکہ اس  دورانیہ میں    یورپی یونین نے   18 ہزار شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی ضمانت دی  تھی۔  ان    اعداد وشمار کے پانچ سالہ خانہ جنگی پر محیط  دورانیہ کے حوالے سے   باقی ماندہ حصوں کو   پُرکرنے  کی ذمہ داری

  ہم  آپ معزز  قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

آئیے  اب یہ دیکھتے ہیں  کہ چاہے اکا دکا ہی  کیوں  نہ ہوں  یورپی  ملکوں میں مہاجرین  سے کیسا برتاؤ روا رکھا جاتا ہے۔  اب اس مسئلے کے اس  پہلو پر    توجہ مبذول کراتے ہیں۔

جرمنی مہاجرین کو  معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنے اور جرمن  زبان سکھانے کے جواز   میں  چھوٹے موٹے کاموں پر لگا رہا ہے۔  تا ہم  ان کام کاج کے لیے      مہاجرین کو   فی گھنٹہ   80  سینٹ ادا کیے جاتے ہیں۔  جرمن  حکومت کی  وزارت محنت   کے  مطابق   جرمنی میں قیام کرنے کے  خواہاں  مہاجرین کو  "طویل مدت تک بیروزگار"  کی  حیثیت سے   گریز کرنا چاہیے۔   قصہ مختصر  کام اور  اجرت چاہے کچھ بھی کیوں  نہ ہو ان کا کام کرنا لازمی    ہے۔

تا ہم    اس ملک میں  ایسی ایسی باتیں اڑ رہی ہیں کہ  اوپر بیان کردہ         حقائق     کافی نارمل لگیں  گے۔  مثال کے طور پر  انتہائی   دائیں بازو کے نظریات کی حامل   سیاسی جماعت  AFD  کے رہنما   فراؤکے  پیٹری    مہاجرین  اور    پناہ گزینوں پر  مشتمل  کثیر الاثقافتی معاشرے کو "گوبر کے ڈھیر " سے تشبیہ دیتے ہیں۔  ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والے مہاجرین کو گولی مارنے     کی بھی تجویز پیش کرنے والے   انتہائی دائیں بازو  کی جماعت کے رہنما     نے  یورپ میں انسانیت  سے  کیا مفہوم     لینے کا سوال  ایجنڈے میں لایا ہے۔

فرانسیسی شہر کلائس  میں مقامی عوام اور مہاجرین کے درمیان  کشیدگی کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔   شہری وہاں پر موجود  مہاجرین کے کیمپ کو  "وحشی جنگل"  کے نام سے پکارتے ہیں۔  گندگی اور  ناقص نظام زندگی    کا مظاہرہ ہونے والے اس کیمپ میں   جنسی  زیادتی کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دس ہزار افراد کے مقیم ہونے والے اس کیمپ کو سردیاں آنے سے پہلے ہی مکمل طور پر مسمار کر دیا جائیگا۔ صدر  اولاند  نے   قریب آنے والے انتخابات     کے اثر کے باعث       کیمپ کو  پہلے کی طرح جزوی طور  پر نہیں مکمل طور پر   ہٹائے جانے کا  اعلان کیا ہے۔  دریں اثناء  برطانیہ    کلائس   کے مہاجرین   کے اس  ملک میں داخلے کا سدِ باب کرنے کے زیر مقصد    فرانسیسی   حکام کے ساتھ   مطابقت  قائم کرتے ہوئے  کیمپ کے  ارد  گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔

ہنگری   کی صورتحال  کیسی ہے آئیے اس پر بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں ۔   یہ ملک    مہاجرین کے نام تک کو سننے کے لیے تیار نہیں  ۔  ایسا ہے کہ   اس ملک میں   رواں  ماہ کے اوائل میں منعقدہ "دو برسوں کے اندر  کیا 1294 مہاجرین کو پناہ دیں یا نہ دیں "  کے معاملے پر ریفرنڈم میں منفی  میں  نتیجہ سامنے آیا ہے۔  ویسے بھی ہنگیرین وزیر اعظم وکٹر اوربان     سالہا سال سے   مہاجرین کے یورپی یونین  کی سلامتی و مستقبل کے  لیے  ایک  خطرہ ہونے کے بیانات  دینے سے  بھی   ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

بدھاپست انتظامیہ  نے مہاجرین  کے ریلوں کو روکنے کے  لیے   سربیا اور    کروشیا کے ساتھ ملحقہ  سرحدوں پر   دیوار   بھی کھڑی کی ہے۔

آسڑیا   نے  مہاجرین کو  فی گھنٹہ  ایک یورو کے معاوضے کے بدلے      سرکاری خدمات  ادا کرنے پر مجبور کرنے والے      ایک مسودہ قانون پر غور  کر رہا ہے۔  اس کے مطابق     مہاجرین کو    سرکاری  مقامات  کی دیکھ بھال اور   پناہ  کے خواہاں نئے مہاجرین  کو اپنے ساتھ  رکھنے پر مجبور ہو ں گے۔ مہاجرین کو  آئندہ کے ایام میں شہری تنظیموں میں   نوکریاں  دینے کا معاملہ  بھی   ایجنڈے میں لایا جائیگا۔ مذکورہ   امور پر عمل پیرا  نہ ہونے والے مہاجرین کو   سماجی امداد  کی فراہمی روک دی جائیگی۔

یونانی   جزائر پر موجود   مہاجرین کی صورتحال  بھی ہر گزرتے دن     ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ  وہاں پر  ان کی تعداد میں اضافہ مقامی عوام کے رد عمل میں  بھی   اضافہ کرتا چلا   جا رہا ہے۔  مثال کے طور پر  لیسووس   جزیرے    میں  5 ہزار 966 مہاجرین  موجود ہونے کے باوجود     وہاں کا بندوبست   ساڑھے تین ہزار  کی   تعداد  کے لیے کیا گیا ہے۔ جزیرہ کوس  میں   مہاجر بچوں   کے   کیمپ سے باہر     مقامی اسکولوں میں تعلیم  حاصل کرنے    کے  حوالے سے    کاروائیاں مقامی  عوام کے رد عمل کا غصے کا موجب بن رہی ہیں۔

 



متعللقہ خبریں