ترکی کا ثقافتی ورثہ 36

تہذیب و تمدن کا گہوارہ،ماردین

567464
ترکی کا ثقافتی ورثہ 36

جنوب مشرقی اناطولیہ   کے علاقے  کا شہر  ماردین    تاریخی اعتبار سے   کافی منفرد ہے ۔ یہاں کا موسم سردیوں میں سخت سرد اور گرمیوں میں  کافی گرم ہوتا ہے۔

 ماردین     ایک پہاڑ  کی چوٹی پر  آباد ہے   کہ جس کی تاریخ     آٹھ ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ اس شہر  پر  رومیوں ، بازنطینیوں ،عربوں ، ارتوک،سلچوک  ،قاراق اور  اک قویون    اقوام    کا قبضہ رہا ۔ بارہویں  اور پندرہویں صدی کے درمیان  ارتوک  سلطنت    کا صدر مقام   ماردین   سولہویں صدی میں  دولت عثمانیہ     کے زیر تسلط آگیا ۔

  متعدد  تحاریری دستاویز  میں اس شہر کا نام ماردین کے بجائے  مردین   درج ہے  کہ جس کے معنی  قلعوں کے ہی  جو کہ  دراصل  شہر میں واقع قلعوں کی وجہ سے  رکھا گیا تھا ۔

ماردین شہر   تاریخی اعتبار سے  کافی  مالا مال      ہے  کہ جہاں  کی  عمارتیں  دیکھنے کے لائق ہیں۔   شہر میں  بنے  پتھروں  کے  مکانات  اور مختلف مذاہب سے وابستہ عبادت خانے  یہاں کے سیاحتی مقامات   میں شمار ہوتے ہیں۔

ماردین      کے قلعے کی تاریخ   ساڑھے تین سو سال  قبل مسیح  پرانی ہے  جو کہ   شہر کے مرکز سے  پانچ کلو میٹر کے فاصلے  پر  واقع ہے ۔علاقے میں  دو  قلعے اور بھی موجود ہیں البتہ یہ قلعہ  اپنی طرز  تعمیر کی  وجہ سے  کافی منفرد ہے  کہ  جس  میں  تخت، کنویں ، غار اور  دیگر  آثار   موجود ہیں۔ دارا   نامی قلعہ ماردین  سے تیس کلومیٹر کے فاصلے   پر   دارا کے تاریخی شہر    میں واقع ہے ۔    اس شہر   میں    سکندر اعظم  اور  پارسی حکمرانوں کے  درمیان جنگیں  بھی لڑی گئیں ۔  تاریخ    سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایرانی حکمدار  دارا  یووانیش    نے اس شہر کی بنیاد ڈالی ۔ اس  مشہور فرماں روا     نے اس شہر میں اس قلعے    کے علاوہ  تھیٹر  اور  پانی کی  نالیاں     بھی تعمیر کروائیں۔

ماردین   میں اسلامی تعمیرات   کے درمیان   مختلف مساجد، مدرسے،کلیات،حمام اور ایک  مسافر خانہ  شامل ہے ۔ ماردین کے مرکز میں واقع سب سے اہم    عمارت اولو جامع مسجد   ہے ۔ بارہویں صدی    کے دوران  یہ مسجد آرتوک     سلطنت  کی طرف سے تعمیر  کی گئی  کہ جس  کی بعد کے سالوں میں تزیئن و آرائش اک قویون   ریاست    نے  کروائی ۔  مسجد کے مینار  پر  کندہ تحاریر کے مطابق   یہ مسجد دیار بکر  کے   شاہ  الغازی قطب الدین  کی طرف سے   سن گیارہ سو چھیئتر میں  تعمیر کروائی گئی   جو کہ  مشرقی اناطولیہ میں     اسلامی تعمیرات کے حوالےسے کافی قدیم تصور کی جاتی ہے ۔

دور حاضر میں   ماردین میں   کثیر تعداد میں   تاریخی  عمارتوں  کا دیکھنا ممکن ہے  کہ جس  میں   آرتوک سلطان  عیسی کی طرف سے    تعمیر کردہ سلطان عیسی   مدرسہ ہے     جس کی  دو منزلیں ہیں۔ یہ مدرسہ    شہر کے عین وسط میں  واقع ہے کہ جس کے    داخلی دروازے پر   نقش و نگاری اور بعض تحاریر کندہ ہیں۔

ماردین  کے جنوب مغرب میں   واقع  سلطان قاسم  نامی مدرسہ  عیسی  مدرسے کی  طرز   پر دو منزلہ ہے کہ جسے     اک قویون    دور میں   تعمیر  کیا گیا تھا ۔ اس مدرسے  میں   ایک مسجد   اور مزار بھی موجود ہے۔  مسجد کے   احاطے میں  ایک پانی   کی سبیل  اور حوض جبکہ    دائیں جانب  دو  عدد مزار    واقع ہیں۔

ماردین  سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر   مدیات  اپنے مینار   پتھروں   سے بنے مکانات   اور سوریانی مذہب   کے     گرجا گھر وں   کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ مدیات  میں   چاندی کا کام یعنی  طل کاری  بھی کافی عمدہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ  مدیات سے اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع  مور سامویل   اور  مور سیمون     کیطرف سے   سن تین سو ستانوے میں   تعمیر کردہ دیر الامور نامی  گرجا گھر  بھی  سیاحت کے  حوالے سے   مشہور ہے ۔

 مدیات میں  بارہ محلے ہیں  کہ جہاں کے روایتی مکانات عموماً دو منزلہ یا ایک منزلہ ہوتے ہیں۔

 ماردین  خریدو فروخت  کے اعتبار سے بھی  کافی  اہم  ہے  کہ جہاں کی روایتی دستکاری اور ہنر مندی  تاحال اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے   خاص کر چاندی    کے زیورات ، پکوان اور  ملبوسات  یہاں کی اہم سوغاتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ماردین    کا شہر  اپنی  طرز تعمیر  اور روایات کی بنا پر  اناطولیہ کے دیگر شہروں سے قدرے مختلف دکھائی دیتا ہے ۔



متعللقہ خبریں