ترکی کے نقطہ نظر سے ۔ 03

سال 1991 سے لے کر اب تک پورے 25 سال سے مشرق وسطیٰ میں ، یعنی اس علاقے میں کہ جہاں ہم رہ  رہے ہیں، ہر روز فضاء یا زمین سے گرائے گئے بم پھٹ رہے ہیں جن کے نتیجے میں  شہر تباہ ہو رہے ہیں، بچے مر رہے ہیں اور اجتماعی اموات ہو رہی ہیں

559342
ترکی کے نقطہ نظر سے ۔ 03

پروگرام "ترکی کے نقطہ نظر سے" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ سال 1991 سے لے کر اب تک پورے 25 سال سے مشرق وسطیٰ میں ، یعنی اس علاقے میں کہ جہاں ہم رہ  رہے ہیں، ہر روز فضاء یا زمین سے گرائے گئے بم پھٹ رہے ہیں جن کے نتیجے میں  شہر تباہ ہو رہے ہیں، بچے مر رہے ہیں اور اجتماعی اموات ہو رہی ہیں۔

جمہوریت اور آزادی کی امید دلانے والی اس  جنگ نے آزادی تو کیا دینی تھی الٹا سینکڑوں سالوں سے ہمارے پاس موجود شخصی حقوق اور آزادیوں کو بھی ایک ایک کر کے ہمارے ہاتھ سے چھین لیا ۔ ہم  سیاحتی آزادی سے لے کر زندگی  گزارنے کی آزادی تک  سب سے  محروم ہو گئے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس قدر آزادیاں اور حقوق ہمارے ہاتھ سے کون چھین رہا ہے یا اس محرومی کا کون سبب بن رہا ہے؟

سوال کا جواب بہت واضح ہے:  یہ  وہ ہیں کہ جو  ہمیں ان آزادیوں سے محروم کرنے والے، 25 سال سے اس علاقے کے انسانوں کو ہلاک کرنے والے اور تقریباً 15 ملین آبادی کو بے گھر کر کے ہجرت پر مجبور کرنے والے ہمیں جمہوریت ، مغربی اقدار  اور ترقی یافتہ اقتصادیات کا خواب دکھا رہے ہیں۔ اجتماعی تباہی  پھیلانے کی ہوس اور بیماری   جمہوری مغربی کلب کے اراکین  سے ہمارے ان نوجوانوں کو بھی منتقل ہوگئی ہے کہ جو زندگیک ی امید کھو بیٹھے ہیں جو آزاد فرد ہونے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں اور ان افراد کو بھی منتقل ہو گئی ہے کہ جو مغرب میں سماجی زندگی سے خارج کر کے اقلیتوں کے رہائشی علاقوں تک محدود کر دئیے گئے ہیں۔

یہ وسیع  تباہی  کی ہوس ، القائدہ، داعش، بوکو حرام، حزب اللہ اور پی وائے ڈی  کے ناموں کے ساتھ  سامنے آئی اور ہلاک کرنے تباہی پھیلانے کی اس  ہوس  کےاثرات ہماری سرحدوں کو عبور کر کے مغرب کے دل کے حامل دارالحکومتوں میں بھی تباہی مچانے لگے۔ہمارے علاقے میں جمہوریت لانے کا وعدہ کرنے والے  اور وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے مالک ہمارے نیکی پسند مغربی دوستوں نے  اس تکلیف کو اپنے دل، روح اور بدن میں محسوس کرنے کے بعد یہ خواب دیکھے کہ وہ اس کا فوری حل پیدا کر سکتے ہیں۔لندن، پیرس، برسلز اور ہیمبرگ جیسے مغربی شہروں میںپھٹنے والے بموں کے مقابل یورپی یونین کے تمام اراکین ممالک اور مغربی اقدار کے مالک دیگر ممالک جس واحد بن گئے، انہوں نے مل کر دہشت گردی کی مذمت کی اور مل کر احتجاج کیا۔ انہیں دنوں میں مغربی اقدار کو 200 سالوں سے اپنی حیاتی ساخت میں رکھنے والے ، ان کا دفاع کرنے  اور انہیں زندہ و تابندہ رکھنے والے ملک ترکی میں بھی بم پھٹے۔ پھٹنے  والے ہر بم کے نتیجے میں بیسیوں انسان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو تے تھے۔ حالیہ دنوں میں ترکی اور مشرق وسطیٰ کے اہم ترین تجارتی و رہائشی شہر گازی آنتیپ میں ایک شادی کی تقریب میں بم پھٹا۔ اس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد کہ جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی ہلاک ہو گئی  اور سینکڑوں شہری زخمی ہو گئے۔

نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حملے کے مقابل مغرب کا ردعمل بہت کمزور تھا بالکل اسی طرح جیسے کہ اس سے قبل ترکی میں کئے گئے بیسیوں بم حملوں میں ہوتا رہا ہے۔ دہشتگردی کے ان حملوں کی فاعل  دہشت گرد تنظیم PKK/PYD  کے دفاتر کا یورپی دارالحکومتوں میں واقع ہونا یہاں تک کہ انٹرپول کی طرف سے مطلوب متعدد دہشت گردوں سے یورپی  پارلیمنٹ میں کانفرنس دلوایا جانا کافی  حد تک دلچسپی کا حامل ہے۔

لیکن یورپ کی جس خاموشی نے انسانوں  کو سب سے زیادہ حیرت زدہ کیا ہے وہ تقریباً 150 سالوں سے مغربی جمہوریت  اور مغربی عدالتی نظام کے ترکی میں جڑ پکڑنے کے لئے کوششوں  میں مصروف ترکی کی پارلیمنٹ  پر ایف ۔ 16 طیاروں سے بمباری کئے جانے، ترکی کے عوام کے نصف سے زائد کی منتخب کردہ حکومت کو فوجیوں کے ایک گروپ کی طرف سے گرانے  کی کوشش کئے جانے اور صدر کو ہلاک کرنے کی کوشش  کئے جانے پر خاموشی کا مظاہرہ کرنا تھا۔ حکومت پر حملے کی اس کوشش میں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے اور ہزاروں  شہری فوجیوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہو گئے۔

یورپی یونین کے اراکین سمیت امریکہ اور دیگر جمہوری ممالک کی خاموشی یا پھر دھیمی آواز  ایسے تھی جیسے وہ اس اینٹی جمہوری اور خونی حملے کی توثیق  کر رہے ہوں۔

روزمرّہ زندگی میں جب ہم مواصلاتی ٹیکنالوجی  کی ترقی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو مغرب کے جمہوری اقدار کے قتل میں ساجھے دار ہونے کو باویریا کے جنگلات کے دیہاتی سے لے کر جزائر، کینیا، بحارت تک کے سائنسی انجینروں تک ہر ایک نے خود دیکھا۔

مغرب نے جمہوریت کے تحفظ اور تعمیر کے لئے کئے گئے آپریشنوں میں عراق، شام، افغانستان یا لیبیا میں ہزاروں انسانوں کو ہلاک اور کئی ملین کا زخمی کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف یہی مغرب ترکی میں جمہوریت کے خلاف دہشتگردی کے بم حملوں کے مقابل چُپ سادھے ہوئے ہے۔

یہ مغرب، گذشتہ ہفتوں میں ترک فوج میں اپنا گڑھ بنانے والے یونیفارم والے دہشت گردوں کے ایک گروپ کی طرف سے ترک عوام کے مینڈیٹ کی نمائندہ اسمبلی پر طیاروں سے بمباری کے مقابل خاموشی اختیار کی۔اسی طرح گذشتہ دنوں ترکی میں ایک شادی کی تقریب میں دہشتگردوں کے بم حملے میں 50 سے زائد افراد کہ جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی ہلاک  ہو گئے اور مغرب نے اس پر خاموشی اختیار کر کے حقیقی معنوں میں اس دہشتگردی کی منظوری دی۔

سوال یہ ہے کہ کیا مغربی  دنیا کو اپنے کئے کا احساس نہیں ہے؟ کیا اسے نہیں معلوم کہ وسیع تباہی کی یہ ہوس ترکی کی سرحدوں کو پار کر کے ان تک پہنچ جائے گی۔ اگر مگربی عوام  اس موضوع پر اپنی حکومتوں کو متحرک نہیں کرتی تو ہو سکتاہے کہ  آنے والے کل تک بہت دیر ہو چکی ہو ۔ اور ہو سکتا ہے کہ اب ایمسٹرڈیم، میونخ، پیرس اور روم  کے شہری بھی دہشتگردی کے ساتھ جینے پر مجبور ہو جائیں۔

سوچنے کی بات اور پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا انسانی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ اس قدر دشوار ہے؟



متعللقہ خبریں