ترکی کا ثقافتی ورثہ33

سلجوکی سلطنت کا صدر مقام قونیہ

553554
ترکی کا ثقافتی ورثہ33

قونیہ ترکی کا شہر ہے جو اناطولیہ کے وسط میں واقع ہے اور جو رقبے کے لحاظ سے ترکی کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

اس شہر پر 1071ء میں جنگ ملازکرد کے بعد سلجوقیوں کا قبضہ ہوگیا یہ سلاجقہ روم کا دارالحکومت رہا تاہم اس دوران صلیبی جنگوں کے باعث یہ عارضی طور پر عیسائیوں کے قبضے میں بھی رہا جن میں 1097ء میں گاڈفرے اور 1190ء میں فریڈرک باربروسا نے اس پر قبضہ کیا۔

قونیہ 1205ء سے 1239ء کے دوران اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب سلطان نے اناطولیہ، مشرق وسطی کے چند حصوں اور کریمیا پر بھی قبضہ کرلیا۔ 1219ء میں یہ شہر خوارزم شاہی سلطنت کے مہاجروں کی پناہ گاہ بنا جو منگولوں کے حملے اور خوارزم شاہ کی شکست کے بعد یہاں پہنچے۔

 1243ء میں قونیہ بھی منگولوں کے قبضے میں آگیا اور سلاجقہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

سلاجقہ روم کی حکومت کے خاتمے کے بعد قونیہ 1307ء سے 1322ء تک کرہ مانیوں کی امارت رہا۔ 1420ء میں عثمانیوں کے ہاتھوں فتح ہوا اور 1453ء میں اسے صوبہ کرہ مان کا دارالحکومت بنادیا گیا۔

اس شہر میں صلاح الدین ایوبی اور عثمانی سلطان سلیم ثانی نے مساجد تعمیر کرائیں۔ مشہور صوفی ابن عربی نے 1207ء میں اس وقت کے سلجوقی گورنر کی دعوت پر شہر کا دورہ کیا۔اس کی اہمیت اور بڑائی کا ایک سسبب یہ بھی ہے کہ یہ مولانا جالال الدین رومی کا مسکن رہا ہے۔یہاں رہ کر انہوں نے  سالہ سال  رشد و ہدایت کا  چراغ روشن رکھا اور ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔

سلچوک دور  میں تعمیر  شدہ  عمارتوں  میں داخلی دروازوں  کو خاصی اہمیت حاصل ہوا کرتی تھی ۔ تاج کاپی کے نام سے مشہور   ان داخلی دروازوں  کی نقش و نگاری  دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔  اس طرح کی فن معماری کا آغاز  چودہویں صدی   میں تعمیر  کردہ  مدرسوں اور مساجد  کے ذریعے ہوا تھا ۔ دو مینار    والے  داخلی دروازے     کا تصور   در حقیقت  تیرہویں صدی میں  الہان  لی ریاست کے دور میں ہوا تھا ۔

قونیہ  کی  صاحب عطا جا مع مسجد   پتھروں ، اینٹوں اور چینی کاری  سے آراستہ  دو مینار  والی  بہترین مثال ہے ۔ اس مسجد  کا دور حاضر میں صرف ایک ہی مینار باقی  بچا ہے  جس  پر نقش و نگاری کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ حالیہ سالوں میں کی جانے والی  تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ  اس مسجد کے سات عد د احاطے ہیں  ۔ اس مسجد کو پہلے  شہتیروں   سے تعمیرکیا گیا تھا  جو کہ  آتشزدگی کے ایک واقعے میں   جل گئی تھی  صرف اس مسجد کے چینی سے بنے مینار اس  تباہی  میں محفوظ رہے تھے۔

 تاج کاپی   پر   ہونے والی کندہ کاری   دور سلچوک کے وزیر  صاحب عطا کی طرف سے سن 1258 میں  کروائی گئی تھی ۔

صاحب عطا   کے داخلی دروازے  میں پتھروں اور اینٹوں  کا حسین امتزاج نظر آتا ہے     اس دروازے  پر  فیروزہ اور  نیلے رنگ کی چینی  کاری کا  نفیس کام نظر آتا ہے ۔ ان میناروں میں سے  ایک     کا وجود دور حاضر میں نہیں ہے  لیکن دوسرا مینار تاحال اپنے پیروں پر کھڑا ہے ۔

اناطولیہ میں  دو مینار  والے داخلی دروازوں  کی حامل صاحب عطا جامع مسجد  سلچوک دور کی اہم فن تعمیرات میں شمار ہوتی ہے ۔



متعللقہ خبریں