ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔ 31

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔ 31

544708
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔ 31

 

آج کے اس پروگرام میں ہم15 جولائی کی ناکام انقلابی کوشش کا جائزہ پیش کریں گے اور  جن دو موضوعات کے بارے میں آپ کو معلومات فراہم کریں گے ان میں سے ایک کا تعلق انقلابی کوشش کی  ناکامی کی وجوہات اور دوسرے کا تعلق انقلابی کوشش  کیخلاف ترک قوم کے عزم اور مغربی ممالک کے اس موضوع سے متعلق اپنائے گئے   دوہرے معیار   سے ہے ۔

۔۔۔ترکی میں 15 جولائی کو  حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی جسے عوامی مزاحمت سے ناکام بنا دیا گیا ۔ فتح اللہ گولن کی دہشت گرد تنظیم نے 1970 کی دھائی سے حکومت کو کنٹرول سنبھالنے کی غرض سے منظم طریقے سے سرکاری اداروں میں جگہ لینی شروع کر دی تھی ۔اپنی طاقت پر یقین رکھنے والی تنظیم سات فروری 2012 کو حرکت میں آئی ۔ تنظیم کے رکن ایک اٹارنی نے محکمہ پولیس کے اراکین کی حمایت سے خفیہ محکمے کے  سیکریٹڑی کو گرفتار کرنے کی غرض سے اس سے پوچھ گچھ شروع کر دی ۔ در اصل تنظیم  کا مقصد خفیہ  محکمے کے سیکریڑی کو سامنے رکھ کر  اس دور کے وزیر اعظم  رجب طیب ایردوان کیخلاف کاروائی کرنا تھا ۔اس کے بعد17 ۔ 25 دسمبر تک جاری کاروائی عمل میں آئی۔  دہشت گرد تنظیم فیتو   ملک میں فراڈ کے دعووں کیساتھ عدلیہ کے اداروں اورمحکمہ پولیس میں موجود اپنے اراکین کو حرکت میں لائی۔ ان کا مقصد آئینی انقلاب کیساتھ ایردوان کی حکومت کو ختم کرنا تھا   لیکن تنظیم  اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اس صورتحال کے بعد حکومت سرکاری اداروں کو استعمال  کرتے ہوئے اور حکومت کےاصول و ضوابط میں ہیرا پھیری کرتے ہوئے اقتدار کو ختم نہ کروا سکنے والی تنظیم کے حکومت میں جگہ لینے والے عناصر کو ختم کرنے کے لیے حرکت میں آ گئی ۔  جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے نکلنے کی راہیں بند ہو گئی ہیں تو انھوں نے 15 جولائی کو  فوجی انقلاب برپا کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں اس مرتبہ بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اس انقلاب کی ناکامی کی اہم وجہ یہ ہے کہ  15 جولائی کو انقلاب  برپا کرنے والی دہشت گرد تنظیم فتح اللہ گولن کےاراکین کو عوامی حمایت  حاصل نہیں تھی ۔   ان کے سامنے  2002 سے ہر انتخاب میں اپنی ووٹوں کی تعداد کو بڑھانے والی سیاسی پارٹی  اور  طاقتور صدر  تھے ۔اق پارٹی کے دور میں پائے جانے والے استحکام اور ترقی کے نتیجے میں منظر عام پر آنے والا طاقتور درمیانی طبقہ ان کے سامنے کھڑا تھا ۔ صد ر ایردوان کی اپیل کے فوراً بعد ہزاروں انسان سڑکوں پر نکل آئے اور جمہوریت کا دفاع کیا ۔ ترکی میں اس سے قبل ہونے والے چار فوجی انقلاب کامیاب رہے تھے مگر اس بار عوام نے انھیں اپنی جراتمندی اور عزم سے ناکام بنا دیا تھا ۔ 15 جولائی انقلاب کی ناکامی کی  ایک دوسری اہم وجہ  یہ تھی کہ انقلابیوں کو مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں کی حمایت حاصل نہیں تھی ۔ انقلابیوں کا تعلق دہشت گرد تنظیم فیتو کے حکومت کے اندر موجود اراکین سے تھا ۔  وہ فوج کے اہم رتبوں پر فائز   تھے  لیکن انھیں زیادہ اختیارات حاصل نہیں تھے ۔علاوہ ازیں پولیس بھی انقلابیوں کیخلاف تھی ۔

ترکی میں عوام کے فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے سڑکوں پر نکل آنے اور ٹینکوں کے سامنے   سیسہ پلائی دیوار بن جانےکو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔ مغربی ممالک کے اعلیٰ حکام اور تبصرہ  نگار  ترک قوم کی جمہوریت کے تحفظ  کی قربانیوں کو نظر انداز  کر رہے ہیں۔ اس کے بر عکس  انھوں نے ترک حکومت کے انقلابیوں کیخلاف موقف کے بارے میں جو اندازے لگائے ہیں  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر مغربی ایک قوم کے جمہوری فقدان کو سامنے لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ان کے مطابق ترکی جو کچھ بھی کرئے وہ جمہوریت کے امتحان میں پاس نہیں ہو سکے گا ۔

ترکی میں بر سر اقتدار آنے  والی حکومت نے  اقتدار سنبھالنے کے بعد ابتک فوجیوں  کے اختیات میں کمی    کی ہے ۔15 جولائی کو عوام جمہوریت اور ملک کا تحفظ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئی  مغربی میڈیا  نے اپنے وطن کا تحفظ کرنے والوں کو  اس طریقے سے دکھایا جیسا کہ انھوں نے کوئی جرم کیا ہو ۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ انھیں 15 جولائی کی انقلابی کوشش کی ناکامی پر افسوس ہوا ہو ۔ انھوں نے ماضی میں ہونے والے انقلابوں کی ایک لحاظ سے تعریف کی ہے ۔  مغربی میڈیا کیمطابق   ماضی کے انقلابات نے  سیکولرازم  کو  مذہبی مملکت کے قیام کے خواہشمندوں  سے تحفظ دیا تھا اور صدر رجب طیب ایردوان     کا مقصد بھی ترکی میں ایک مذہبی مملکت قائم کرنا ہے   حالانکہ صدر ایردوان 2013 میں افریقی ممالک کے دورے کے دوران انھیں ملک میں سیکولرازم لانے کی اپیل  کرنے والے ایک سربراہ ہیں ۔

بی بی سی اور دی انڈیپنڈنٹ نے 15 جولائی  انقلابی کوشش کی ناکامی کے بعد صدر ایردوان کیخلاف پروپگنڈا مہم شروع کر دی ہے ۔ حتی ٰ کہ بی بی سی کے ایک تبصرہ نگار نے کہا ہے کہ صدر ایردوان کو قتل نہ کر سکنا انقلابیوں کی غلطی ہے۔

مغربی ممالک کے حکام   ، عالمی تنظیموں اور اداروں کا موقف بھی میڈیا سے مختلف نہیں تھا ۔ وہ جمہوری درس دینے والی ترک ملت کا نام نہیں لے رہے ۔ اس کے بر عکس انھیں  ناکام فوجی بغاوت کے بعد  حکومت کیطرف سے 250 انسانوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے غداروں  کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے  کے فیصلوں پر تشویش لاحق ہے ۔وہ فکر مند ہیں کہ حکومت انقلابیوں  سے پوچھ گچھ کرئے گی یا اس سے پہلے تیار لسٹوں میں موجود  افراد سے باز پرسی کرئے گی ۔

ترکی کے بارے میں ایسا موقف اپناتے وقت مغربی ممالک اور یورپی یونین کو یہ  حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئیے کہ ان کے ممالک میں دہشت گردی کے ٹھوس  الزام   کے بغیر حراست میں لینے کا  امکان فراہم کرنے والے قوانین موجود ہیں ۔



متعللقہ خبریں