ترکی کا ثقافتی ورثہ 24

لیدیا شہر اور قارون کا خزانہ

507655
ترکی کا ثقافتی ورثہ 24

اناطولیہ کے مغرب میں  واقع   گیدیز اور  مندریس نامی دریاوں کے درمیان   کا علاقہ  لیکیا کہلاتا تھا ۔ ایک  انڈو-یورپیئن   قوم    ہونے کے ناطے لیدیا     کے لوگ  اناطولیہ میں  پہلی بار  سن دو ہزار صدی قبل مسیح  میں  دیکھنے میں آئے  تاہم   سات سو سال قبل مسیح  سے قبل  ان کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات کا فقدان  رہا ہے۔ ان ابتدائی ادوار میں ہومیروس، مائیون  اور تمولوس  کے دامن میں  واقع ان شہروں کو ہاِیڈ بھی کہا جاتا تھا ۔ تاریخی دور سے وابستہ ذرائع کے مطابق  لیدیا قوم     نے ان علاقوں میں  تین مختلف حکمرانوں کے ذریعے اقتدار سنبھالا کہ جن میں   آتیاد قوم، ہیراکلی قوم  اور مرمناد قوم   شامل تھیں۔ لیدیا قوم کی   حاکمیت  بذات خود  مرمناد قوم کے دور  یعنی ساتویں صدی  قبل مسیح  میں  دیکھنے میں آئی ۔

لیدیا  قوم  کے اس اچانک عروج   کی ا ہم وجہ  سونے  کی کانیں تھیں  کہ جنہیں  لیدیا قوم نے ساردیس نامی شہر  میں  نکلانا شروع کیا ۔ دریائے گیدیز  کی ایک شاخ  پاکتولوس نامی ندی تھی   کہ جہاں ایک روایت کے مطابق  اس ندی  کے پانی کو چھونے سے ہر چیز سونے  کی بن  جاتی تھی  کہ جسے   فریگیا کے  شاہ  میداس سے بھی منسوب کیا  جاتا ہے ۔ دیوتاوں کے اس   بیش بہا اور انمول تحفے   کو حاصل کرنے  والے  میداس نے  خوف کے مارے   روٹی کو بھی ہاتھ لگانا  چھوڑ دیا اور دیوتاوں سے گڑ گڑا کر اس  معجزے سے نجات کی  دعا مانگی ۔ شاہ میداس کی دعا آخر کار رنگ لائی   اور دیوتاوں نے اُسے  پاکتولوس  ندی میں  نہانے کےلیے کہا ۔ میداس نے ایسا ہی کیا   لیکن   اس ندی  کا پانی  سونے میں  تبدیل ہو گیا ۔ خیال ہے کہ  اس ندی     سے سونا نکالنے کاکام   دو سو تا تین سو سال قبل مسیح میں شروع ہوا ۔ لیدیا سلطنت کا   سب سے نامور اور کامیاب  ترین  حکمران  کا نام  آلیاتیس تھا ۔ اس  حکمران نے  کیمیریا ئی قوم   سے جنگ لڑنے کے بعد انہیں  قزل ارماک    نامی دریا   کے مشرق   میں پس قدمی پر مجبور کرتے ہوئے  مغربی اناطولیہ  کے  ہیلین نامی شہر     پر قبضہ کرلیا ۔ اس دوران  ایران    پر قابض ہونے والی مید یا قوم   نے کچھ ہی عرصے میں  اناطولیہ  پر  قبضہ کرتے ہوئے  لیدیائی قوم   کےلیے  خطرہ بننا شروع کر دیا ۔ ان دونوں   ریاستوں  کی افواج    نے   پانچ سو پچاسی تا پانچ سو نوے صدی قبل مسیح   میں  قزل ارماک  کے مقام پر  جنگ لڑی ۔پانچ سال  جاری  یہ جنگ  سورج گرہن ہونے کی وجہ سے اپنے اختتام کو پہنچی ۔ دونوں ریاستوں نے   دریائے قزل ارماک کے  دونوں  جانب    سرحدوں کا تعین  کیا ۔لیدیا قوم  کے دوسرے اہم حکمران  کا نام  کروئیسوس تھا   جو کہ آلیاتیس   کا بیٹا تھا ۔ کروئیسوس   اپنے دور کا امیر ترین شخص تھا  حتی اسے  قارون ثانی بھی کہا جاتا تھا۔  دنیا کی تاریخ میں  سونے اور چاندی  کے سکے ایجاد  کرنے والا پہلا شخص بھی  کروئیسس تھا  کہ جس نے بعد ازاں  میلیتوس ، ایفیسوس، ساموس، کیزیکوس  اور کیوس  جیسے شہروں میں  اس نظام کو رائج کروایا ۔ کروئیسیس   نے پارس قوم سے جنگ لڑنے  سے قبل   ڈیلفی نامی  معبد    کے ایک  نجومی سے جنگ    میں کس کے غالب آنے  کے بارے میں رجوع کیا  جس کے جواب  میں اس نجومی نے  کہا کہ جو بھی اس جنگ میں  بھاری  پڑے گا وہ جیتے گا۔ کروئیسیس  نے اسے اپنی جیت سے تعبیر کیا  اور پارس قوم سے جنگ لڑنے چلا گیا  لیکن    مخالف  فوج یہ جنگ جیتتے ہوئے  پانچ سو چھیالیس صدی قبل مسیح میں  لیدیا   ریاست  کو تسخیر کرلیتی ہے۔

 

لیدیا ریاست  میں   ثقافتی تر قی خاص کر   سونے  اور دیگر دھاتوں  سے متعلق کاری گری   کا تعلق   ہیلین   کے محلات   اور معبد خانوں  سے ملتا ہے ۔ سن  انیس سو ساٹھ میں مغربی اناطولیہ کے علاقے میں  کی جانے والی کھدائی   کے دوران  بیرونی ممالک   اسمگل   کیے جانے والے ان نوادرات کو  قارون   کے خزانے کے  طور پر  بھی یاد کیا جاتا    ہے ۔ سن انیس سو چھیانوے سے اوشاق   شہر کے    تاریخی عجائب خانے میں  قارون کے    تقریباً چار سو کے قریب   تاریخی نوادرات  موجود ہیں۔

 ساردیس  نامی شہر لیدیا  ریاست کا صدر مقام تھا  کہ جو  دور حاضر کے شہر منیسا کی تحصیل صالح لی میں  ازمیر۔ انقرہ  قومی شاہراہ  پر ازمیر سے بہتر کلومیٹر کے فاصلے پر   واقع ہے ۔ ساردیس    شہر کے  فینیکے ، مصر، آسور  اور ہیلین   کی ریاستوں سے تجارتی تعلقات قائم تھے ۔ ساردیس  شہرکی عوام کو دنیا کے پہلے بازار قائم  کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔  لیدیا قوم سے وابستہ  مزار بھی   صالح لی کے شمال  مغرب میں واقع   مارمرہ  نامی جھیل  کے کنارے  موجود ہیں۔

ساردیس شہر  نے لیدیا قوم   کے بعد   اپنی اہمیت گنوادی  تھی ۔ پارس قوم  کے قبضے کے بعد   اس شہر نے مغرب   میں    ثقافتی اعتبار سے اپنا مقام بنا لیا تھا ۔ سوسا  سے ساردیس    کے درمیان   شاہی شاہراہ      کی تعمیر سے اس ترقی میں  اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ۔  تین سو چونتیس  صدی قبل مسیح   میں  یہ شہر سکندر اعظم  کے قبضے میں   چلا گیا ۔ اس کی وفات کے بعد    دو سو بیاسی صدی قبل مسیح  یہ شہر  سیلیوکوس قوم کے قبضے میں چلا گیا ۔ ایک سو اسی  قبل مسیح میں  برگاما کے شاہ  اور  ایک سو تینتیس قبل مسیح میں   رومی سلطنت کے   زیر تسلط رہا۔ ساردیس  شہر  بازنطینی دور میں ایک    راہبانہ مرکز   میں تبدیل   ہوگیا     کہ جہاں  ایشیا   کے  سات بڑے گرجا گھروں میں سے ایک   کی تعمیر بھی کی گئی ۔ یہ شہر بعد ازاں   سولہویں صدی میں  ترکوں    کے قبضے میں آگیا۔



متعللقہ خبریں