ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 23

صدر رجب طیب ایردوان نے ایک دفعہ پھر اس اہمیت کا اظہار کیا ہے کہ جو وہ برّ اعظم افریقہ کو دیتے ہیں

506815
ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 23

پروگرام " ترکی کی امدادی سرگرمیاں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ آج  ہم صدر رجب طیب ایردوان کے یوگنڈا، کینیا اور صومالیہ  پر  مشتمل افریقی ممالک کے دورے  کو ترکی ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

 

صدر رجب طیب ایردوان نے ایک دفعہ پھر اس اہمیت کا اظہار کیا ہے کہ جو وہ برّ اعظم افریقہ کو دیتے ہیں۔ صدر ایردوان نے ترکی کے فراموش کردہ برّ اعظم   "افریقہ کی طرف کھلنے" کے عمل کا آغاز کروایا  اور  حالیہ دورے میں ایک وسیع وفد کے ہمراہ یوگنڈا، کینیا اور صومالیہ  کا دورہ کیا۔ دورے نے  متعدد پہلووں سے اہم مذاکرات کے لئے  زمین ہموار کی اور افریقی عوام اور ترک عوام کے حوالے سے نئی دوستیوں اور نئے روابط  کے دروازے کھولے۔ صدر ایردوان کا دورہ افریقہ ان کے استعمال کردہ ایک  یوگنڈا کے محاورے کی وجہ سے بھی ایجنڈے پر آیا۔ اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں صدر ایردوان یوگنڈا پہنچے جہاں انہوں نے  یہ محاورہ استعمال کیا  کہ " گوشت چبانے کی صلاحیت رکھنے والے دانت ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے دانت ہوتے ہیں"۔ کہاوتیں اپنے ملکوں  کی ثقافت کی عکاس ہوتی ہیں۔ یوگنڈا کے  لوگوں نے  اپنے اتحاد  کی اہمیت کو اپنی زندگیوں  سے منتخب کردہ ڈیزائنوں کے ساتھ آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔  افریقہ میں شکار اور شکار کئے جانے والے جانوروں  کا گوشت  اہم غذائی اجزا میں شامل ہے۔ افریقی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک شکار کا گوشت  کھانے کے لئے اسے توڑنے والے مضبوط  دانتوں کا مالک ہونا ضروری ہے۔ منہ میں دانت  جس قدر کم ہوں گے گوشت کو توڑنا اسی قدر مشکل ہو گا۔یعنی طاقت اتحاد سے پیدا ہوتی ہے۔

 

صدر رجب طیب ایردوان  ترکی میں اپنے خطابات کے دوران ان الفاظ کو ایک تواتر سے استعمال کرتے ہیں کہ " آئیے متحد بنیں، طاقتور بنیں  اور  زیادہ زندہ بنیں"۔ ان الفاظ کے ساتھ وہ اتحاد و یکجہتی کی اہمیت کو واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہی  ہے کہ ممالک ، ثقافتوں اور تہذیبوں کو زندہ رکھنے والی قوت اتحاد کی قوت ہے۔

 

افریقہ میں تقسیم اور مختلف ممالک کے کالونی بننے کا دور اتحاد کے خاتمے کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ بعض قبیلے  استعماری طاقتوں کی طرف سے انہیں فراہم کردہ امکانات اور سہولتوں کے دھوکے میں آ گئے اور اپنے   ہی بھائیوں سے جھگڑے شروع کر دئیے۔ متعدد ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیوں کے نتیجے میں لاکھوں افریقی لقمہ اجل بن گئے ۔

 

دورہ افریقہ کے دوران صدر ایردوان نے "باہمی اتحاد و یک جہتی " کے پیغام کے بعد جو دوسرا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ " دنیا پانچ ممالک سے بڑی ہے"۔ اس پیغام سے صدر ایردوان نے دنیا میں موجود تفریق اور ناانصافی کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو اتنے وسیع و عریض برّ اعظم افریقہ سے اور نہ ہی  1.7  بلین مسلمان آبادی سے  کوئی ملک اقوام متحدہ  کا مستقل رکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ناانصافی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ  جب تک غریب ممالک اور امیر ممالک کی تفریق  موجود رہے گی جھڑپوں اور بد امنی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

 

اس موقع پر اگر ان کے ذہن میں آتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایک اور محاورے کا استعمال کرتے ۔ اس محاورے میں  یوگنڈا کے عوام کہتے ہیں کہ " جب ایک بھائی دوسرے جتنا امیر ہو تو وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں"۔ اس محاورے میں یوگنڈا کے عوام  دولت کی مساوی تقسیم کی طرف اشارہ  کرتے ہیں۔ اسی طرح یوگنڈا کے مستقبل  کے لئے یعنی نوجوانوں کے لئے  کہتے ہیں کہ " آپ کے درمیان دولت کی غیر مساوی تقسیم آپ کو ایک دوسرے سے لڑا دے گی"۔

 

ترکی کی افریقہ کے ساتھ دلچسپی اس دلچسپی سے بہت مختلف ہے کہ جو ایک استعماری ملک کو اس برّ اعظم سے ہو سکتی ہے۔ ترکی ایک طویل عرصے تک برّ اعظم افریقہ  پر حکمرانی کرنے والی  شہنشاہیت کا وراث ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب  سلطنت عثمانی    ختم ہو گئی تو سوڈان کی مساجد میں  سلطان کے نام سے خطبہ دینا بند نہیں کیا گیا  اور اس طرح  یہ پیغام 1940 تک دیا جاتا رہا  کہ "ہم عثمانی سلطنت کے ساتھ وابستہ ہیں"۔ ایک ترک اور ایک مسلمان کو افریقہ میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔افریقی جب ایک ترک کو دیکھتے ہیں تو ان کا روّیہ ایسے ہوتا ہے کہ جیسے کہیں دور دراز سے ان کا  کوئی رشتہ دار آ گیا ہو۔  ترکی سے جانے والے بھی اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہوئے خالی ہاتھ نہیں جاتے۔ ترکی تعاون  و ترقیاتی  ایجنسی TİKA   برّ اعظم افریقہ میں اپنے ترقیاتی منصوبوں اور ترکی ہلال احمر اپنی انسانی امداد کی وجہ سے علاقے میں خاص مقام رکھتی ہے۔

 

صدر ایردوان کے دورہ  برّ اعظم افریقہ   کا اگلا مقام کینیا تھا۔  ان کے وفد میں شامل کاروباری حضرات  نے کینیا میں متعدد مذاکرات کئے اور کاروباری سمجھوتے طے پائے۔ صدر ایردوان   نے ان الفاظ کے ساتھ کہ "آنے والے ہزار سالوں کا ستارہ افریقہ ہو گا" کاروباری حضرات کو ہدف دکھایا۔

 

صدر ایردوان کے دورے کا تیسرا مقام صومالیہ تھا۔ صومالیہ میں ترکی کی امدادی تنظیموں نے سال 2011 سے لے کر اب تک سینکڑوں ملین ڈالر کا امدادی کام  کیا ہے۔ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کی سڑکوں اور  راستوں پر استنبول میٹرو پولیٹن بلدیہ  کی طرف  سے بھیجی جانے والی  مشینوں نے کنکریٹ بچھایا۔ فٹ پاتھوں  کو ترکی نے بنایا۔ ترکی ہلال احمر صومالیہ میں ہر روز 8 ہزار افراد کے لئے گرم کھانا تقسیم کر رہی ہے۔اسی طرح ترک ہلال احمر کے لگائے گئے خیمہ سٹی میں ہزاروں  صومالی باشندے امن و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یتیم خانوں کے لئے خوراک ترکی ہلال احمر کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہے۔  شہر میں  حیوانات  کے فضلے اور مردہ جسموں کو اکٹھا کر کے ہڈیاں جلانے والی بھٹیوں میں جلا کر ختم کیا جا رہا ہے۔ بلکہ زیادہ درست الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ ترکی  صومالیہ کے مستقبل کے لئے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ترکی ہلال احمر کی طرف سے زیر تعمیر  میڈیکل کیرئیر کالج  مکمل ہو گیاہے۔ اس کالج میں صومالیہ  کے صحت کے سسٹم کے لئے نہایت اہمیت کی حامل نرسوں کو تربیت دی جائے گی اور اب بچے پیدا ہوتے ہی موت کے منہ میں نہیں جائیں گے۔

 

دنیا ایک بڑے جھوٹ کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ صدر ایردوان نے اپنے دورہ افریقہ کے دوران  جتنے بھی خطاب کئے  ان میں ترقی یافتہ ممالک کی دو رُخی کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان ترقی یافتہ ممالک  کے عمل نے ان کے بیانات کے برعکس  افریقہ میں بھوک اور جھڑپوں میں  مزید شدت  پیدا کی۔ صدر رجب طیب ایردوان کی باتیں بہت ممکن ہے کہ آج بہت سے لوگوں کی سمجھ  میں نہ آئیں ۔ لیکن  کینیا کے ایک محاورے  کے مطابق " ایک جھوٹ کیسا بھی تیز رفتار کیوں  نہ ہو حقیقت اس سے آگے نکل ہی جاتی ہے"۔

 

دنیا میں حقیقت کی حکمرانی کی تمنا کے ساتھ۔۔۔۔



متعللقہ خبریں