ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 22

عالمی انسانی کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی ہے، اجلاس میں جس ملک کا ضمیر سب سے زیادہ مطمئن تھا وہ ملک ترکی تھا

504506
ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 22

پروگرام " ترکی کی امدادی سرگرمیاں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ عالمی انسانی کانفرنس اختتام پذیر ہو گئی ہے۔  اجلاس میں جس ملک کا ضمیر سب سے زیادہ مطمئن تھا وہ ملک ترکی تھا۔ کانفرنس کے نتائج ترکی ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

 

عالمی انسانی کانفرنس 23 سے 25 مئی کی تاریخوں میں استنبول میں منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس پہلی دفعہ منعقد کی گئی۔ پہلی کانفرنس کا ترکی کی میزبانی میں منعقد ہونا خواہ علامتی ہی کیوں نہ ہو نہایت اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ ترکی انسانی امداد کے موضوع میں ایک ایسے ملک کی حیثیت میں تھا کہ جسے کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ  ترکی نے کانفرنس میں آنے والے مہمانوں کی میزبانی  بھی اسی قلبی سکون و اطمینان کے ساتھ  کی۔

انسانی سربراہی اجلاس کے بارے میں تقریباً تقریباً دنیا کی ہر جگہ پر خبریں شائع ہوئیں۔ ان خبروں کے لئے استعمال کردہ  قابل ذکر  سرخیوں میں سے ایک معروف روزنامے انڈی پینڈنٹ نے لگائی۔ سرخی اصل میں ایک سوال تھا "عالمی انسانی سربراہی اجلاس  یا دو رخوں کا اجلاس؟"

 

عالمی انسانی سربراہی اجلاس میں بیسیوں ممالک کے سربراہان اور وزرائے اعظموں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ، سینکڑوں امدادی تنظیموں کے منتظمین، سیاست دانوں ، کاروباری حضرات، فنکاروں اور اخباری نمائندوں نے  شرکت کی۔  استنبول میں ،تقریباً 8 ہزار افراد نے 3 دن تک انسانی امداد کے  مستقبل کے بارے میں بات چیت کی۔ روزنامہ انڈی پینڈنٹ کی سرخی کا مفہوم  اصل میں ان تین روزہ مباحث کے پس منظر کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ کیوں کہ مباحث میں مسئلے کے حل کے لئے سخت اور پُر زور بیانات  جاری کئے گئے لیکن ان کے مقابل  مسئلے کے اسباب کے بارے میں خطابات ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ کیوں کہ مسائل کو پیدا کرنے والا موجودہ دنیا کا خود مختاری کا نظام تھا۔ عالمی انسانی سربراہی اجلاس کی تیاریاں اب سے پورے 4 سال قبل شروع ہوئیں، تب سے لے کر اب تک متعدد ابتدائی اجلاس کئے گئے۔ تقریباً 23 ہزار افراد کی رائے لی گئی۔ ان آراء میں  جو اپیل سب سے ٹھوس شکل میں سامنے آئی وہ انسانوں  کو درپیش  تکالیف کا مداوا کرنے سے متعلق تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تکالیف کے اسباب کیا ہیں ؟

 

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  شائد اس اجلاس کے سب سے مطمئن رہنما تھے۔ کیوں کہ وہ ملک میں 3 ملین کے قریب مہاجرین کو پناہ دئیے ہوئے ہیں  اور ان کی تمام ضروریات کو ترکی اپنے ذاتی وسائل سے پورا کر رہا ہے۔ اجلاس میں صدر ایردوان نے کہا کہ ایسی امداد کہ جو ریکارڈ میں ہے اس کی مالیت 10 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس امداد میں جب سول سوسائٹیوں کی امداد اور شہروں میں موجود چھوٹی امدادی تنظیموں کی امداد کو بھی شامل کیا جائے تو اعداد و شمار 20 بلین ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں۔ صدر ایردوان نے مالی امداد کا وعدہ کرنے لیکن اسے کسی صورت پورا نہ کرنے والے یورپی یونین کے ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ان کی امداد کو ہم اپنے لئے نہیں شامیوں کے لئے استعمال کریں گے"۔  انہوں نے کہا کہ یورپی یونین ممالک  کی طرف سے مالی بوجھ نہ بانٹنے کی صورت میں کچھ عرصہ قبل یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے "مہاجرین کی واپسی " کے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور ترکی کی طرف سے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ صدر ایردوان نے اقوام متحدہ  کی قانونی ساخت کی کسی قسم کی کوئی پابندی نہ ہونے پر بھی تنقید کی۔

 

دنیا میں انسانی امداد  کے شعبے کے بھی ایک بڑے سیکٹر کی شکل اختیار کرنے کے بارے میں ایک وسیع رائے موجود ہے۔ سال بھر میں اس سیکٹر میں منتقل کی جانے والی رقوم 155 بلین ڈالر کے قریب ہیں۔ اس رقم کے انسانی تکالیف کو کم کر سکنے یا نہ کر سکنے کی بحث ایک طرف  یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ آیا اس رقم کو درست استعمال کیا بھی جا رہا ہے کہ نہیں۔ انگریزی روزنامہ اصل میں ماضی کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ ہیٹی کے زلزلے کے بعد جمع ہونے والی امدادی رقوم  کے خرد برد ہونے  کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ جس خرد برد  میں اقوام متحدہ کے حکام بھی شامل تھے۔ اور اقوام متحدہ نے اس موضوع پر ابھی تک ایک معذرت تک نہیں کی۔ اخبار لکھتا ہے کہ واقعے کے بعد سے  6 سال  کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک رائے عامہ کے لئے کوئی تسلی بخش بیان تک جاری نہیں کیا گیا۔ افریقہ میں امن فورسز کے فوجیوں کو بچوں کے استحصال کرنے والوں کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ایک طرف انسانی مسائل اور تکالیف پر بات کرنے والی اور ان کے خاتمے کی خواہش ظاہر کرنے والی حکومتیں دوسری طرف ڈکٹیٹروں کے ساتھ اسلحے کی تجارت کر رہی ہیں۔

 

ان تمام تر دو رُخوں کے درمیان انسانی امداد کا سیکٹر بھی تیزی سے  وسعت اختیار کر رہا ہے۔اس سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ اقوام متحدہ سے منسلک امدادی تنظیمیں حاصل کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ جمع ہونے والی امداد  کے استعمال میں کسی قسم کا کردار نہ ہونے کے باوجود 7 فیصد  کے قریب کمیشن وصول کر رہی ہے۔  عالمی غذائی پروگرام 14 ہزار افراد  کو ملازم رکھے ہوئے ہے۔

 

عالمی انسانی سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے امدادی تنظیموں کے اسٹالوں کا دورہ کیا۔ انہوں نے سب سے زیادہ وقت جس اسٹال پر گزارا وہ "سیو دی چلڈرن" نامی امدادی وقف  کا اسٹال تھا۔ اس وقف  کے سربراہ کی سالانہ تنخواہ 3 لاکھ 50 ہزار ڈالر کے قریب ہے۔

 

اس سے قبل کے پروگرام میں ہم نے کہا تھا کہ "ترکی انسانی امداد کے موضوع پر دنیا کی رہنمائی کی کوشش کر رہا ہے"۔ ترکی نے یہ رہنمائی کر دی ہے کیوں کہ ایک طرف ایک  وقف کے سربراہ کی سالانہ آمدنی 3 لاکھ 50 ہزا ڈالر  ہے تو  دوسری طرف بیسیوں ممالک کے لاکھوں متاثرین  کو امداد پہنچانے والی ترکی کی ہلال احمر تنظیم کا سربراہ یہ کام رضاکارانہ طور پر کر رہا ہے۔ اس کے ہم پلہ افراد ایک لاکھ ترک لیرا  تنخواہ لے رہے ہیں تو وہ  اپنے حق کی وصولی کی فکر سے زیادہ بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ  بکھیرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔



متعللقہ خبریں