ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔22

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔22

501251
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔22

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔22

لیبیا میں اپریل 2016 سے طرابلس اور تبروک مجلس کے اراکین کی شرکت سے لیبیا سیاسی مذاکرات  جاری ہیں ۔ ان مذاکرات کے اختتام پر قومی مطابقت حکومت یو ایم ایچ قائم  ہوئی لیکن قومی جنرل کانگریس کیطرف سے تعینات کردہ طرابلس حکومت اور مجلس نمائندگا  ن ٹی ایم  سے وابستہ تبروک حکومتیں بھی سر گرم عمل ہیں ۔ سنگین مسا ئل سے دوچار  تین حکومتوں کی صورتحال ابھی تک غیر یقینی ہے لیکن نئے  دور  میں تعمیری سیاست  کو ممکن بنانے والی بعض تبدیلیاں بھی موجود ہیں ۔  اقوام متحدہ کی زیر قیادت شروع ہونےوالے مذاکرات اور مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہونے والے اتحاد کی بدولت   تیسرا دور شروع ہو ا تھا ۔مذاکرات کے  عمل ایم جی کے اور ٹی ایم کے سربراہان نے اس عمل کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ علاوہ ازیں، مذاکرات میں شریک اراکین  نے اپنی اسمبلیوں کی نمائندگی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا   لیکن اس کے باوجود سلسلہ مذاکرات جاری رہا۔ ان مذاکرات میں  لیبیا کی دونوں حکومتوں کے زیر کنٹرول علاقوں کے مختلف شہروں ،قبیلوں اور ملیشیا قوتوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔  تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اقوام متحدہ کی زیر قیادت مذاکرات جاری رہے اور 17 دسمبر 2015 میں ضابطہ مطابقت کے طور پر  لیبیا سیاسی معاہدے ایل ایس اے پر دستخط  کر دئیے گئے ۔

بین الاقوامی  حمایت کے نتیجے میں لیبیا میں مصالحت عمل میں آئی تھی ۔ اس  حمایت  نے نئی تشکیل دی جانے قومی مطابقت حکومت کے طرابلس پہنچنے کے بعد مزید واضح شکل اختیار کر لی ۔17 دسمبر 2015 میں مراکش کے سہیرات شہر میں دستخط  ایل ایس اے معاہدے کے تحت قائم ہونے والی وزارت عظمیٰ کونسل کے سربراہ اور یو ایم ایچ وزیر اعظم فیاض سراج 30 مارچ کو طرابلس روانہ ہوئے۔ 135 رکنی ایم جی کے 73 اراکین کے ایل ایس اے کی رو سے ایم جی کے کے مملکتی کونسل میں تبدیل ہونے کا اعلان کیا  گیا ۔نئی مملکتی کونسل نے کسی مزاحمت کے بغیر  فرائض  سنھبالے اور ایم جی کے سے وابستہ حکومت کی نو وزارتوں میں یو ایم ایچ کیساتھ فرائض کا تبادلہ ہوا۔

اقوام متحدہ کے لیبیا کے خصوصی نمائندے اور لیبیاحمایتی کمیشن کے سربراہ مارٹن کوبلر  اسی روز طرابلس پہنچ گئے  اور 2014 میں اس شہر سے واپس بھیجےجانے والے مشن کو دوبارہ بلانے کا اعلان کیا ۔ کوبلر کے دورے کے بعد 12تا16 اپریل اٹلی ،فرانس ،جرمنی اور برطانیہ کے وزراء خارجہ نے طرابلس کا دورہ کیا  اور لیبیا کو  مالی اور سلامتی کے شعبوں  میں امداد دینے کا وعدہ کیا ۔  ان مما لک نے لیبیا کی واحد سرکاری حکومت کے یو ایم ایچ کے ہونے کا اعلان کیا ۔ اسطرح  یو ایم ایچ کو عالمی سطح پر حمایت حاصل ہو گئی ۔ ایم جی کے حکومت سے وابستہ دس بلدیات نے یو ایم ایچ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ لیبیا سرمایہ کاری  کے محکمے ،لیبیا اسٹیٹ بینک  اور قومی پٹرول کمپنی جیسے اہم اداروں نے یو ایم ایچ کو سرکاری اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا ۔ مالی وسائل سے متعلق فیصلوں کا حق رکھنے کیوجہ سےایل بی ایم کی حمایت انتہائی درجے اہمیت کی حامل تھی ۔ یو ایم ایچ  نےطرابلس میں قلیل مدت میں  اپنی دھاک بٹھا لی جس کے نتیجے میں اجلاس میں ضروری تعداد حاصل نہ کرنے کے بہانے کیساتھ اعتماد کے ووٹ میں تاخیر کروانے والی تبروک کی ٹی ایم کی سرگرمیوں کے دائرے کو محدود کر دیا ۔ ٹی ایم کے اکثر اراکین ایل ایس اے کی رو سے ہونے والے رائے دہی میں  یو ایم ایچ کی حمایت کی ایل ایس اے کے مخالف ٹی ایم کے سربراہ اوکیلا صالح کی کوششوں کی بدولت اعتماد کے ووٹ کی تاخیر نہ کی گئی ۔  دباؤ اور رکاوٹوں  کیساتھ ایک ماہ میں ٹی ایم کے مصالحت کے حامیوں   کو خاموش کروا دیا گیا اور 20 اپریل کو ٹی ایم کے 102 اراکین نے یو ایم ایچ کو مثبت ووٹ دینے سے پہلے ایل ایس اے کی 8 ویں شق کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔  اس شق کو ہٹانے کی صورت میں لیبیا کے مغربی علاقے  کے ناپسندیدہ  جنرل ہفتر یو ایم ایچ حکومت میں بھی مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت سے  فرائض انجام دینے کی راہ ہموار ہو جاتی تھی ۔

کوبلر اور مغربی ممالک کے اعلانات میں یہ واضح کیا گیا کہ وہ یو ایم ایچ کو لیبیا کی سرکاری حکومت تسلیم کرتے ہیں ۔ لیبیا کے ساحلوں سے مہاجرین کی ہجرت کو روکنے کے لیے یورپی یونین نے یو ایم ایچ  سے رجوع  کیا ۔ تبروک حکومت کے ایل ایم بی اور ایم پی ایس کے  اداروں کو مرکز سے جدا کرتے ہوئے اپنی حکومت سے وابستگی کا اعلان کرنے سے ان اداروں کو تسلیم نہ کرنے کا  امریکہ اور دیگر ممالک نے برملا اظہار کیا تھا  لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے ٹی ایم  کو لیبیا کے مقننہ ادارے کے طور پر تسلیم  کیا تھا ۔ لہذا ٹی ایم، ایل ایس اے اور یو ایم ایچ کی توثیق کے بغیر یو ایم ایچ کی قانونی حیثیت زیر بحث  رہی ۔ حکومت کے قیام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے کوبلر نے کسی دوسرے شہر میں ٹی ایم اراکین کی ضروری تعداد  جمع کرنے کی شرط پر رائے دہی کروانے  کا اعلان کیا لیکن ٹی ایم کے اراکین کے حالیہ ایک ماہ سے اپنائے گئے موقف سے فی الحال اس کا امکان ممکن  نظر نہیں آتا ہے ۔

جنرل ہفتر کے مسئلے کو دو وجوہات کی بنا پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ پہلی وجہ  کا تعلق ہفتر کو حاصل بیرونی حمایت سے ہے ۔ فرانس، مصر ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جنرل ہفتر کی حمایت کر رہے ہیں   ۔علاوہ ازیں، انھیں ملک کے مشرقی علاقوں کے قبیلوں کی حمایت بھی حاصل ہے ۔

 عالمی برادری کافی عرصے  سے لیبیا میں بیرونی مداخلت کی ضرورت پر زور دے رہی ہے ۔لیبیا میں قائم ہونے والی مصالحتی حکومت کی دعوت سے اس مداخلت کو مشروع بنایا جا سکتا ہے ۔ داعش کے لیبیا میں وجود اور مہاجرین کے مسئلے نے یورپ اور عالمی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ اسوقت لیبیا میں  کم تعداد میں امریکی برطانوی اور فرانسیسی خصوصی دستے موجود ہیں لیکن جامع مداخلت کے لیے یہ تعداد ناکافی ہے ۔ توقع ہے کہ   شام اور عراق میں ہزیمت کا سامنا کرنے والی داعش لیبیا میں اپنے پاؤں مضبوط  بنانے  کے لیے کوششیں کرئے گی ۔مغربی ممالک نے  لیبیا  کے   دعوت نامے کاانتظار کیے بغیر مداخلت  کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔یو ایم ایچ کی حکومت مضبوط ہوئے بغیر لیبیا میں مداخلت کا موضوع زیر بحث ہے لیکن اس کاروائی کے دوران لیبیا کے مقامی عناصر کو  باہر نہیں رکھا جائے گا اور یو ایم ایچ کو تسلیم کرنے والے ملیشیاوں کو بھی کاروائی میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی ۔ وزیر اعظم سراج غیر ملکی مداخلت سے زیادہ لیبیا کی قوتوں پر مبنی اتحاد کے داعش کیخلاف جنگ کرنے کے حامی ہیں لیکن یہ نا ممکن ہے ۔  جنرل ہفتر نے اعلان کیا ہے کہ وہ دیگر ملیشیا قوتوں  پر پابندی نہ لگانے کی صورت میں یو ایم ایچ حکومت کے احکامات کو قبول نہیں کریں گے ۔ اسوقت تین حکومتوں سے وابستہ ملیشیا قوتیں داعش کیخلاف جنگ کرنے کے لیے سرتے کیطرف پیش قدمی کر رہی ہیں   لیکن دوسری طرف جنرل ہفتر کی قوتیں اور یو ایم ایچ حکومت سے وابستہ مصراتی ملیشیا داعش کیخلاف جنگ شروع ہونے سے پہلے ایک دوسرے کیخلاف بر سر پیکار ہو گئے  ہیں ۔ مصراتی ملیشیاوں کو دو بار داعش کے خود کش حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

 نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ یو ایم ایچ کی طرابلس میں سرگرمیوں کیساتھ شروع ہونے  والے دور سے  قلیل مدت میں  ملک میں نئے خوف و ہراس پیدا ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یہ دور ایک مثبت موقع میں بھی بدل سکتا ہے لیکن  یہ تبروک کے رکاوٹیں پیدا کرنے والے گروپ کے بیرونی حمایت ملنے کی امیدوں کے ختم ہونے کی اس صورت میں ہی     ممکن ہے۔



متعللقہ خبریں