ترکی کا ثقافتی ورثہ 20

قارس اور اس کا محل وقوع

495011
ترکی کا ثقافتی ورثہ 20

مشرقی اناطولیہ کے علاقے کی تاریخ مختلف تہاذیب کا گہوارہ رہی ہے کہ جس کا اثر آج بھی اس علاقے میں واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والے زائرین ایک ہی جگہ پر مختلف تہذیبوں کے آثار دیکھ سکتے ہیں۔ یہ علاقہ تاریخی آثار کے اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے ۔

علاقائی مقامات میں ایک خاص جگہ آنی اورین ہے جو کہ  ضلع قارس سے پینتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر آرپا ندی کے کنارے واقع ہے کہ جہاں بازنطینی اور سلچوکی ادوار کے آثار کافی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ اس قدیم شہر کی تاریخ تین سو سے ساڑھے تین سو سال پرانی ہے ۔ بعض تحاریری دستاویز سے معلوم ہوتا ہے آٹھویں صدی میں آرمینی حکمداروں میں شمار باگرات قوم نے یہاں ڈیرہ ڈالا ۔ باگراتی فرماںروا آشوت کو سن 885 میں عباسی خلیفہ اور بازنطینیوں کی طرف سے آرمینی شاہ کے طور پر قبول کیا گیا ۔آشوت اور اس کے جانشینوں نے نویں صدی میں عربوں کا علاقے میں قبضۃ ختم کرتےہوئے اپنا راج قائم کرلیا ۔ اس دور میں آشوت کے تیسرے فرماںروا نے آنی شہر کو باگرات ریاست کا صدر مقام قرار دیتےہوئے یہاں بعض قلعے تعمیر کروائے۔ آشوت کی جگہ اس کے جانشین سیمپات دوئم نے آنی کے جوار میں دیگر عمارتیں بھی تعمیر کروائیں جن میں گرجا گھر قابل ذکر ہیں۔

سن ایک ہزار چونسٹھ میں سلچوک سلطان الپ ارسلان کے قبضے کے بعد شہر کا نظم و نسق سیدات قوم کے حوالے ہو گیا ۔ بعد ازاں یہ شہر جورجیئن ، منگولوں کے بعد سن تیرہ سو اسی میں قارا قویون قوم اور سولہویں صدی میں عثمانیوں کے زیر تسلط آگیا ۔
آنیاورین  کا تاریخی شہر کاروانوں کی گزر گاہ پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا تھا ۔ سلجوکی دور میں اس علاقے کو تعمیراتی لحاظ سے کافی جدید شکل میں ڈھالا گیا تھا۔ آنی شہر میں سن اٹھارہ سو نوے میں بعض پرانی عمارتوں کی از سر نو مرمت کی گئی جبکہ کی جانے والی کھدائی کے نتیجے میں یہاں سے کچھ نئے آثار بھی برآمد کیے گئے۔


آنی اورین کے مقام پر گیارہویں صدی میں تعمیر کردہ کیچیلی گرجا گھر یعنی سینٹ پرکیچ گرجا گھر واقع ہے ۔اس گرجا گھر کے بیرونی حصوں میں کافی نقش و نگاری کی گئی ہے ۔ علاقے میں ایک بڑا گرجا گھر بھی موجود ہے کہ جس کی تعمیر سیمپات دوئم کے دور میں شروع ہوئی اور تکمیل سن ایک ہزار ایک میں ہوئی ۔ شہر کے مرکز میں ایک دیگر گرجا گھر بھی واقع ہے کہ جو یونانی طرز تعمیر کا نمونہ ہے ۔اس گرجا گھر کے عین وسط میں گنبد موجود ہے ۔ اس گرجا گھر کے بیرونی حصوں پر کافی نقش و نگاری سے کام لیا گیا ہے۔اس گرجا گھر کو سلچوکی دور میں ایک مسجد میں تبدیل کر دیا گیا کہ جس میں سلجوکی سلطان الپ ارسلان نے بھی نماز جمعہ ادا کی تھی ۔
آنی میں سلجوکی دور کی اہم تعمیر ات میں شمار منوچہر مسجد ہے جو کہ صدادی امیر ابو سوجا منو چہر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی ۔ اس مسجد کے میناروں اور دیواروں کا کچھ حصہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔اس کے علاوہ ابو المعمران نامی ایک جامع مسجد بھی علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے کہ جو بارہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی دور حاضر میں اس مسجد کا احاطہ اور اندرونی حصہ مسمار ہو چکا ہے ۔
آنی شہر کے شمال مغربی دہانے واقع سلجوکی محل اپنی عظیم الشان عمارت سے زائرین کی توجہ کا مرکز بنتا ہے ۔ محل کے بیرونی دروازے پر سنگ کاری و نقش و نگاری کا اعلی کام کیا گیا ہےاس کے علاوہ محل میں جا بجا رنگ برنگے پتھروں کا بخوبی استعمال بھی نظر آتا ہے ۔
شہر کے وسط میں بارہویں صدی سے وابستہ ایک مسافر خانے کے کھنڈرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں کہ جس پر سلجوکی دور کے فن تعمیر کا رنگ نظر آتا ہے ۔مسافر خانے کے بیرونی دروازے پر سیاہ اور سرخ رنگ کے پتھروں کا بھی کافی استعمال کیا گیا ہے۔

قارس کا شہر ثقافتی اقدار کےحوالے سے کافی مالا مال ہے کہ جس کا ثبوت یہاں واقع عجائب خانہ ہے ۔اس عجائب خانے میں قدیم تاریخی آثار کے علاوہ کانسی ، سیرامیک سے بنے مجسمے بھی موجود ہیں اس کے علاوہ عجائب خانے میں مختلف ادوار سے وابستہ سکے، موسیقی کے آلات اور قبروں کے کتبے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ان تمام مقامات کے علاوہ گنبد مسجد ، پتھری پل اور پرانا حمام بھی دیکھنے کے لائق ہیں۔



متعللقہ خبریں