حلب شعلوں کی لپیٹ میں ۔ حصہ اول

4 سال سے زائد عرصے سے جاری شام کی خانہ جنگی اب عالمی ایجنڈے اور دنیا بھر کی توجہ سے ہٹتی جا رہی ہے

488928
حلب شعلوں کی  لپیٹ میں ۔ حصہ اول

5 ویں  سال میں  داخل ہونے والی  شام کی خانہ جنگی    اب     بتدریج         جلی سرخیوں اور   دنیا کے ایجنڈے     سے  خارج   ہوتی   جا رہی  ہے۔   ہماری دنیا      اگلی تازہ ترین  خبر   کی   جانب  نظریں   مرکوز  کیے   ہوئے  ہے تو    شام   میں  قتل  عام  جاری ہے    جس کے ساتھ   ساتھ      اس جنگ کے خاتمے   اور شام    میں امن و خوشحالی   کی بحالی  کی   امیدیں    بھی   معدوم   پڑتی جا رہی  ہیں۔

حالیہ  4 برسوں کے اندر   شام     نے   اس    خونی جنگ   کے تمام تر بوجھ   کو    برداشت کیا ہے۔  تا ہم   شام  کے دوسرے   بڑے   شہر   اور  ثقافتی اور فنانس   مرکز     حلب   میں    حالیہ  چند ہفتوں سے جاری   وسیع پیمانے  کی     جھڑپوں  نے   ملک کی  خانہ جنگی کے کسی مرکز کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔    کیونکہ  حلب   پر  قبضہ  ملکی انتظامیہ  اور اس کے حامیوں کے لیے  ایک  اہم سطح کی فتح ہو گا۔   یہ چیز              پہلے سے ہی   انتہائی  سنگین ہونے  والی  انسانی صورتحال کو     مزید  ابتر بنا دے گی    جس سے  ترکی کی جانب   نقل مکانی  کے ریلوں  میں   مزید اضافہ ہو گا۔  تا ہم ہر چیز  سے  قبل     ماضی قریب میں       رونما ہونے والے ان واقعات   اور     اس وحشیانہ جنگ کے  خلاف   دنیا کی بے حسی     اسد  انتظامیہ کو مزید    شہہ دلائے گی۔

18 دسمبر  سن 2015 کو قبول  کردہ  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  کی  2254 نامی قرار داد         کے مطابق      اس جنگ  کا خاتمہ،  انسانی  امداد  فراہم کرنے       اور   کسی       نئی حکومت کے قیام  کے  لیے    کسی     نئے  فریم  اور  شیڈول    کو وضع  کرنا  مقصود  تھا۔  علاوہ ازیں   اس    قرار  داد کے  داعش  کے خلاف جدوجہد  میں  بھی  بار آور  ثابت  ہونے  کی  توقع کی جاتی تھی۔

اسد قوتیں  ادلیب، حلب اور ملک کے دیگر علاقوں پربمباری کر رہی تھیں جبکہ  روس اور شعیہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت سے مخالفین کے ٹھکانوں اور  شہریوں پر بری  حملے جاری تھے ۔  اس دوران اقوام متحدہ نے جو فیصلہ کیا تھا  وہ کسی بھی مقصد کو پورا نہیں کر رہا تھا ۔

  11 فروری کو د شمنی کو ختم کرنے کے لیے میونخ میں ہونے والے معاہدے   کا مقصد جنیوا میں اقوام متحدہ کی زیر قیادت مذاکرات کے لیے زمین ہموار کرنا تھا  ۔ اگر چہ اس معاہدے کی رو سے فروری اور مارچ میں شام میں  جاری تشدد میں کمی آئی لیکن اب صورتحال پہلے سے بھی بد تر ہو گئی ہے ۔  یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام میں داعش کیخلاف جدو جہد میں بہت کم مسافت طے ہو سکی ہے ۔  اسد انتظامیہ نے   اقوام متحدہ کے حکام کیطرف سے بھی  تائید کردہ سلامتی کونسل کے فیصلہ نمبر  2254 اور میونخ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے ۔   اسد انتظامیہ لازکیے کے شمال، حلب اور ادلیب  کے شہریوں اور  مخالفین کے علاقوں  پر بمباری کرتے ہوئے سینکڑوں  افراد کو ہلاک کرنے کیساتھ ساتھ  انسانی امداد کو ضرورت مند  علاقوں تک پہنچانے کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی  کر رہی  ہے  ۔ اسد انتظامیہ نے اب حلب پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے ۔  اس نے  مخالفین کے زیر کنٹرول علاقوں  میں موجود شہریوں کو سزا دینے کے لیے اسکولوں، ہسپتالوں، شاہراہوں   اور تندوروں پر شدید بمباری کا سلسلہ  شروع کر  دیا ہے ۔اسد انتظامیہ جس  روسی حربے کو استعمال کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ  صرف جنگجوؤں کیخلاف جنگ  نہ کریں  بلکہ ان کے خاندانوں ،گھروں اور قصبوں پر بھی  بمباری کریں  تو ایک گولی چلائے بغیر ہی وہ جنگ کرنے سے باز آ جائیں گے ۔

 



متعللقہ خبریں