ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔16

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔16

473777
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔16

سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نےصدر رجب طیب ایردوان کی دعوت پر ترکی کا دورہ کیا اور اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی ۔ ترکی نے شاہ سلمان کے دورے کو انتہائی اہمیت دی اور انھیں ترکی کا سب سے بڑا نشان مملکت عطا کیا ۔شاہ سلمان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں قابل رشک اضافہ ہوا ۔ 2013 میں مصر کے پہلے صدر محمد مرسی کے کیخلاف فوجی انقلاب کے بعددونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے ۔ ترکی نے قوم کیطرف سے منتخب صدر کی حمایت کی تھی جبکہ سعودی عرب نے انقلابی قوت کا ساتھ دیا تھا لیکن اب دونوں ممالک نے دنیا کو علاقائی سٹریٹیجک حصہ دار اور اتحادی ہونے کا پیغام دیا ہے ۔ انسان کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس وقت کیوں دونوں ممالک کے تعلقات کوتعلقات تاریخی دور سے گزر رہے ہیں ۔ تعلقات کی بہتری کا صرف شاہ سلمان سے تعلق نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات اور ان مفادات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنائی جانے والی پالیسیوں سے ہے ۔

ترکی اور سعودی عرب مغربی طاقتوں کی طرف سےاپنائی جانے والی علاقائی پالیسیوں سے بے چینی محسوس کرتے ہیں ۔اسوقت ترکی اور سعودی عرب شام ،عراق اور یمن کے بارے میں متفقہ نظریات رکھتے ہیں ۔ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ایران نے علاقے میں ضرورت سے زیادہ اثرو رسوخ کو بڑھا لیا ہے اور ایران کیساتھ جوہری معاہدہ کرتے ہوئے مغربی ممالک نے قومی مفادات کی خاطر علاقے کے توازن کو نظر انداز کیا ہے ۔

دوسرا اہم موضوع یہ ہے القائدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بہانہ بناتے ہوئے علاقے میں بیرونی مداخلت کی جا رہی ہے جس سے ترکی اور سعودی عرب سخت بے چینی محسوس کرتے ہیں ۔ دونوں ممالک ان تنظیموں کیخلاف علاقائی ممالک کیطرف سے براہ راست کاروائی کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ سعودی عرب نے ایران کیخلاف 1979 سے خدشات محسوس کرنے شروع کر دئیے تھے ۔ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد جیو پولیٹک رقابت دونوں ممالک کے درمیان علاقائی سرد جنگ کا سبب بنی تھی ۔ ایران کے نئے نظام نے علاقے میں قوت کے توازن کو بدلا اور علاقائی نظریاتی جمود کو آئیڈیالوجی نقطہ نظر سے چیلنج کیا ۔ اس صورتحال سے خاصکر علاقائی حیثیت کو چیلیج کرنے والی سعودی انتظامیہ اورخلیجی ممالک اور عراق کے لیے نئے خطرات سامنے آئے ۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک نے آٹھ سال تک جاری ایران عراق جنگ اور صدام اقتدار کی ہر پہلو کیساتھ حمایت کی تھی۔

2003 میں صدام انتظامیہ کیخلاف امریکہ کی زیر قیادت فوجی مداخلت دوسرا اہم موڑ ثابت ہوئی ۔مداخلت کے بعد عراق میں اقتدار کی تبدیلی نے علاقائی طاقت کے توازن کوایران کے حق میں بدل دیا ۔ عراق میں انتخابات کے بعد بر سر اقتدار آنے والی شعیہ پارٹیوں پر مشتمل حکومتوں کے ایران کیساتھ گہرے تعلقات قائم ہو گئے ۔بہار عرب کے دوران پیش آنے والے واقعات کے علاقے پر اثرات بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی طاقت کی جدوجہد کو بڑھا نے کا سبب بنے ۔ سعودی عرب نے اس دور میں بحرین کی صورتحال کو اپنے ملک کیخلاف ایران کی مداخلت اور یمن اور شام کی صورتحال کو علاقائی قوت کے توازن اور جدوجہدکی نظر سے دیکھا۔

مغربی ممالک کے ایران کیساتھ جوہری معاہدے کے بعد ایران کے بارے میں خدشات بڑھنے لگے ۔عراق کا داعش کا جواز پیش کرتے ہوئے ایران اور امریکہ کیساتھ مل کر حرکت کرنے کی پالیسی کا ایران اور امریکہ کے درمیان تعاون کی نظر سے جائزہ لیا گیا ۔ روس کیطرف سے شام اور ایران کی حمایت بھی سخت تشویش کا باعث بنی ۔ ان پالیسیوں سے اسد انتظامیہ کو مضبوط بنایا جا رہا تھا ۔ سعودی عرب کیمطابق علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو عالمی برادری مثبت نظر سے دیکھ رہی تھی ۔

2014 میں ترکی اور سعودی عرب کے علاقائی پیش رفت کے بارے میں نظریا ت میں مطابقت کھل کر سامنے آنے لگی۔ شاہ سلمان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تیزی کیساتھ اضافہ ہوا۔ دسمبر 2015 میں ہونے والا سٹریٹیجک تعاون معاہدہ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

دونوں ممالک نے نیٹو طرز کی تنظیم تشکیل دینے کے لیے مل جل کر حرکت کی۔ ترکی کی نظر میں 34 مسلمان ممالک کا اتحاد مشرق وسطیٰ میں سٹریٹیجک گنجائش بڑھانے کے معنی رکھتا تھا ۔ دونوں ممالک کی مغربی ممالک کی علاقے میں مداخلت سے محسوس کی جانے والی بے چینی اس تعاون میں مدد گار ثابت ہوئی ۔ باہمی تعلقات کو فروغ ملنے سے شام کے بارے میں متضاد نظریات رکھنے والے ترکی اور سعودی عرب نے ہر معاملے میں مشترکہ موقف اپنایا ۔ 2016 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعاون کے واضح اشارے ملے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تعاون پائیدار ثابت ہو گا کیونکہ مشرق وسطیٰ کی سیاست کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ سیاسی تعاون قلیل المدت ثابت ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ علاقائی ممالک کا موقف نہیں بلکہ 19 ویں صدی سے ابتک علاقے میں جاری بیرونی مداخلت ہے جو مقامی عناصر پر دباؤ کا سبب بنتی ہے ۔ یہ دباؤ کمزور مملکتی ڈھانچے اور نظام کو سامنے لاتا ہے ۔ اسوقت بھی مشرق وسطیٰ کے علاقے میں بیرونی طاقتیں سر گرم عمل ہیں ۔ اگر ان مداخلتوں کیخلاف مشترکہ حساسیت کے مظاہرے کو جاری رکھا گیا تو باہمی اتحاد کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے ۔



متعللقہ خبریں