اسرئیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش کی جائے، امریکی سینیٹر

امریکی سینیٹر پیٹرک لیحے نے امریکی افواج کی مدد سے اسرائیل اور مصر کی وحشیانہ قتل و غارت کی کاروائیوں پر تحقیقات کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے

465828
اسرئیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کی تفتیش کی جائے، امریکی سینیٹر

اگر ایک امریکی سینیٹر سر زد کردہ جرائم کی بنا پر اسرائیل کے خلاف عدالتی کاروائی کیے جانے کا تقاضا پیش کرتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟

سینیٹر پیٹرک لیحے نے امریکی افواج کی مدد سے اسرائیل اور مصر کی وحشیانہ قتل و غارت کی کاروائیوں پر تحقیقات کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی سینیٹر پیٹرک لیحے کو امریکی فوجی امداد فراہم کیے جانے والے ملکوں میں سر ِ فہرست اسرائیل اور مصر کی جانب سے " حقوق انسانی کی تمام تر خلاف ورزیوں" کی چھان بین کیے جانے کے مطالبے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے شدید غصے اور اپنی سیاسی جماعت سے رد عمل کا سامنا ہے۔

دریائے اُردن کے مغربی کنار ے پر واقع شہر ہیبرون میں ایک زخمی فلسطینی شہری کو اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے بلا عدالت خونخواری سے قتل کرنے کے مناظر کے افشا ہونے کے چند روز بعد لیحے کی اس واقع کی چھان بین کرنے کی درخواست ، امریکی فوج کے اسرائیلی دائیں بازو کی حکومت سے تعاون و امداد کے بتدریج کسی سیاسی کشیدگی کی ماہیت اختیار کرنے کے اشاروں میں سے ایک ہے۔

17 فروری کے روز لیحے اور ڈیموکریٹس کے دس پارلیمانی ارکان نے سیکرٹری خارجہ جان کیری کو ایک خط روانہ کیا۔ ماہ ِ مارچ کے اواخر میں رائے عامہ کے سامنے بھی اژکار کیے جانے والے اس خط می درجہ ذیل تحریریں درج ہیں: "سیکورٹی فورسسز کی اسرائیل اور مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تیار کردہ رپورٹوں کی تعداد میں بے چین کرنے کی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ امریکی افواج کا تعاون حاصل ہونے والے یا پھر اس چیز کا احتمال پائے جانے والے فریقین پر مبنی واقعات ہیں۔"

"ہم ان رپورٹوں کے درست ہونے یا نہ ہونے پر تفتیش کرنے اور اس دوران حاصل کردہ نتائج سے ہمیں بھی مطلع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"

سینیٹر کا یہ خط امریکی حکومت کے لیحے قوانین کی کی خلاف ورزی ہو سکنے کا دعوی کرتا ہے۔ اس قانونی دائرے کا مقصد" سیکرٹری خارجہ کی جانب سے کسی غیر ملکی سیکورٹی قوتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے حوالے سے معتبر معلومات حاصل کرنے کی صورت میں" ان ملکوں کو امریکی فوجی امداد کو روکنا ہے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی فوج اور پولیس کی طرف سے فادی علون ،سعد ال عطرش ،حدیل حشلامون اور متاز اویسہ کی بے گناہ اموات پر مبنی ایک رپورٹ میں اشارہ دیتےہوئے بتایا ہے کہ ان کے علاوہ وسیم معروف اور احمد منسرہ کو بھی گرفتاری کے دوران بے جا صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

مونڈو وائز کے مصنف فلپ وائز کا کہنا ہے کہ ہینک جانسن، آندرے کارسن، ایڈی برنیس جانسن اور الی نور ہولمز نورٹن جیسے غیر سفید فام اقلیتی نمائندوں نے اس موضوع پر اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اس بات کا بھی خدشہ واضح کیا ہے کہ بقول تامارا کوفمین کے ، مسئلہ فلسطین سے ہمدردی جتانے والے سیاہ فام اور لاطینی گروہوں کے بر عکس امریکہ میں اسرائیل کی حمایت کو آہستہ آہستہ سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔

لیحے نے اپنے اس مراسلے میں اسرائیلی خلاف ورزیوں اور مصر کے آمرانہ واقعات سمیت سن 2013 میں رابعہ اسکوائر میں ہونے والے قتل عام کو ایک ہی تسلسل کا حصہ قرار دیا ہے کیونکہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنانے سے ہمیشہ سے گرزی کرتی آئی ہے ۔باور رہے کہ امریکہ اسرائیل کو ہر سال 3٫1 بلین ڈالر کی فوجی امداد پہنچاتا ہے جبکہ مصر کو 1٫5 بلین ڈالر کی امداد ملتی ہے اور یہ امداد دونوں ممالک اپنی وحشیانہ پالیسیوں کو لاگو کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں کہ سن 2014 میں ان دونوں ممالک کو امریکہ نے فوجی امداد کا 75 فیصد سے زائد فراہم کیا تھا ۔

یہ مشترکہ مذمتی مراسلہ امریکی سینٹ کے خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ڈیموکریٹک رکن اور اسرائیلی نواز لابی سے عطیات کا ڈھیر جمع کرنے والے بن کارڈن کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنا۔ فارورڈ نامی ایک نشریاتی ذرائع نے گزشتہ اتوار کے روز اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ بن کارڈن کے مطابق اسرائیل قوانین کی بالا دستی کے اصولوں پر عمل کرتا ہے کہ جہاں اس نظام کا بول بالا بھی ہے لہذا اس سلسے میں ہمیں کسی قسم کی صفائی کی ضرورت نہیں ہے ۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتان یاہو نے گزشتہ بدھ کے رو ز سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی افواج اور پولیس کا قتل کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسرائیلی فوجی اور پولیس اہلکار اپنے آپ اور معصوم شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے آنے والے خونی دہشت گردوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں ۔

972 جریدے کی تجزیہ نگار دہلیہ شائنڈلن نے نیتان یاہو کے بیان کو جھوٹ کا پلندا قرار دیا ہے ۔ معافی کی عالمی تنظیم کیطرف سے فروری 2014 کو شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے بچوں سمیت فلسطینی باشندوں کو نتائج کی پرواہ کیے بغیر ہلاک اور زخمی کیا ہے ۔ ان اثبات کے منظر عام پر آنے کے کچھ مدت بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ 51 روز جاری رہا ۔ ان حملوں میں 578 بچوں سمیت 2415 فلسطینی جاں بحق ہوگئے تھے۔

ڈیفینس فار چلڈرن انٹر نیشنل فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے 2015 میں کم از کم 28 بچوں کو انتہائی بے دردی سے زدو کوب کیا ہے ۔اسرائیل کی یہ پالیسی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مزاحمت کا جواب ہے ۔اسرائیل" ہلاک کرنے کے لیے گولی مت چلاؤ " کی پالیسی پر عمل درآمد کر رہا ہے ۔

اس کے علاوہ لی نے نیتان یاہو کے دعووں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ لی قانون 20 سال سے موجود ہے اور اس قانون کے تحت کسی قسم کے امتیاز کے بغیر دنیا کے ہر ملک پر عدالتی کاروائی کی جاتی ہے اور جب امریکی فوجی امداد موضوع بحث ہو تو اس کا اطلاق عمومی سکیورٹی فورسز کے لئے نہیں بلکہ طے شدہ فوجی اہلکاروں اور یونٹوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ لی نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی حق تلفی نہ ہو اور ملکی قانون کی بالا دستی قائم رہے۔

نیتان یاہو نے ایک اور ایسا قدم اٹھایا کہ جس کی وجہ سے بین الاقوامی مباحث میں مزید تیزی آئی۔ انہوں نے جمعہ کے روز کیری کو ٹیلی فون کیا اور اس بات کے اعلان کا مطالبہ کیا کہ امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کی طرف سے دی جانے والی موت کی سزاوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔

اس وقت جب کہ یہ مباحثہ جاری ہیں نیتان یاہو نے سالانہ 4.5 بلین ڈالر فوجی امداد کی طلب امریکہ کو پہنچائی ہے۔

تاہم امریکن فرینڈز سروس کمیٹی کے حکومتی تعلقات کے ذمہ دار اہلکار رائد جرار نے آلٹر نیٹ پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "نیتان یاہو انتظامیہ اپنی پالیسیوں اور ان کے اطلاق میں اس قدر انتہا پسند ہے کہ ان کے اقدامات امریکہ کی بلینک چیک پالیسی کے دوام کو ناممکن بنا رہے ہیں"۔

نیشنل لائرز گلڈ کی انٹرنیشنل کمیٹی کی نائب چئیر مین سوزان آڈیلے کے مطابق اسرائیل کا سال 2014 میں غزہ کا حملہ اور مصر میں 2013 کا قتل عام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے یہاں تک کہ مرکزی میڈیا سے زیادہ بڑی آواز یعنی حکومتی اہلکاروں اور عام امریکی شہریوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔



متعللقہ خبریں