ترکی کا اُفق نو ۔ 13

یورپ اپنے نقطہ نظر کو بہترین اقدار کے طور پر دنیا بھر پر مسلط کرنے کے درپے ہے

460757
ترکی کا اُفق نو ۔ 13

نامور مفکر اورتاگے گاسیت نے The Dehumanization آف آرٹ نامی اپنی تصنیف میں ایک ہی واقع کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے چند افراد کے بیانات میں کس طرح اور کیونکر فرق پائے جانے کاکچھ یوں ذکر کیا ہے: "ایک مشہور شخصیت مرنے کے قریب تھی ، اس کی اہلیہ اس کے سرہانے بیٹھی تھی، ڈاکٹر جان نکلنے کے قریب ہونے والے شخص کی نبض چیک کر رہا تھا۔ عقب میں مزید دو لوگ موجود تھے جو کہ حق بجانب جواز کے ساتھ ایک صحافی اور اتفاقیہ طور پر وہاں پہنچنے والا ایک مصور تھا۔ مختصراً مشہور شخص کی اہلیہ، ڈاکٹر ، صحافی اور مصور ایک ہی واقع کو دیکھ رہے تھے۔ تا ہم ان تمام کرداروں کے درمیان کسی مشترکہ چیز کی موجودگی کو بیان کرنا انتہائی مشکل بات ہے۔

افسوس کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکنے والی عورت اور اس واقع کا بلا کسی تاثر کے مشاہدہ کرنے والے مصوری کے درمیان فرق اتنا زیادہ تھا کہ ان دونوں افراد کا ایک ہی واقع کا گواہ ہونے کا کہنا نا ممکن ہے۔ اس صورت میں یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایک ہی حقیقت کا مختلف نقطہ نظر سے جائزہ لینے سے کئی ایک حقائق سامنے آتے ہیں یا پھر مسخ ہوتے ہیں۔ ان حقائق میں سے آیا کہ کونسا اصلی اور کونسا نقلی ہے کا سوال ہمارے ذہنوں میں اٹھتا ہے۔ اس کا جواب کس طرح نتیجے تک پہنچنے کو بالائے طاق رکھے بغیر صرف اور صرف اس وقت کی کیفیت پر مبنی ہو گا۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا من موجی کا مرہون منت ہو گا۔ تمام تر حقائق مساوی ہوتے ہیں اور ہر نظر دیکھنے والے شخص کے نقطہ نظر کے مطابق ہوتی ہے۔ ہم یہاں پر صرف ان کے نقطہ نظر کے درمیان صنف بندی کرتے ہوئے ان کے درمیان سب سے زیادہ نارمل یا پھر برجستہ ہونے والوں کا تعین کر سکتے ہیں۔"

ایک ہی واقع کے سامنے مختلف رد عمل کا مظاہرہ کرنا ایک فطری چیز ہے۔ ہر کوئی اپنے نظریات اور اعتقاد کے مطابق وضع کردہ فریم سے دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے ، جو کہ ایک نکتہ چینی کیے جا سکنے والی چیز نہیں ہے۔

تا ہم یہاں پر ایک چیز اہم ہے اور وہ یہ کہ اپنے نقطہ نظر کو زبردستی قبول کروانا اور ذاتی ترجیحات کو قطعی " حقیقت " کے طور پیش کرنا ہے۔

آج یورپ اپنے نطقہ نظر کو دنیا بھر پر تھوپنے کے درپے ہے۔ کائناتی انسانی حقوق اور ڈیموکریسی سے تعلق رکھنے والی اقدار کے پیش کردہ مواقعوں سے خود اعتمادی کا حصول نمایاں ہے۔ تا ہم یہ صورتحال بیک وقت صحیح کاموں پر عمل پیرا ہونے کا مفہوم نہیں رکھتی۔

مثال کے طور پر ہم بیلجیم کے بم دھماکوں کا اسی دائرہ کار میں جائزہ لے سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا دین و امان ، نظریات اور علاقے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ واقعی میں ایک حقیقت ہے۔ شدت اور دہشت گردی کو کسی بھی انسانی اقدار سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ برسلز میں قیام پذیر ہونے یا پھر وہاں گئے ہونے سے ہٹ کر کوئی گناہ و قصور نہ ہونے والے انسانوں کا قتل کرنے والا کسی شخص کا آیا کہ کوئی نظریہ ہو سکتا ہے؟ کونسا عقیدہ معصوم انسانوں کی جانیں لینے کا پرچار کرتا ہے؟ کونسی نسل اپنے وجود کی کسی دوسرے کے مردہ جسم پر نشاط کر سکتی ہے؟

دہشت گردی نے آج دنیا کے اہم ترین مسئلے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں دو معاملات نا گزیر ہیں۔ ان میں سے ایک بین الاقوامی تعاون جبکہ دوسران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہے۔ طبعی طور پر ہر دہشت گرد خلاف پابندیاں عائد کی جانی چاہییں تا ہم دہشت گردی کی پرورش کرنے والے افکار کو بھی ختم کرنا اولین کام ہے۔

کسی بھی انسانی اقدار کو غیر انسانی طریقوں اور وحشیانہ قتل عام سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ عصر حاضر میں مغرب اس ضمن میں سب سے دردناک تجربات کا مالک ہے۔ ذاتی مفاہمت کو جبری مسلط کرنے سے کس قسم کا رد عمل اور فاشزم کو شہہ دینے کا انہوں نے خود مشاہدہ کر لیا ہے۔

ہمیں مل جل کر دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اب دنیا بھر میں سرحدوں کا مفہوم ختم ہو چکا ہے ، تمام تر دنیا ایک دوسرے سے مضبوط طریقے سے منسلک ہے۔ انقرہ پر حملہ برسلز پر جبکہ برسلز پر حملہ انقرہ پر حملے کے مترادف ہے۔



متعللقہ خبریں