ترکی کا ثقافتی ورثہ 13

سلطان احمد مسجد کی سیر

458039
ترکی کا ثقافتی ورثہ 13

ترک اسلام فن معماری کی شاندار مثال سلطان احمد جامع مسجد سترہویں صدی کے اوائل میں عثمانی خلیفہ احمد اول کے حکم پر معمار محمد آغا نے تعمیر کی تھی ۔ اسے بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی لیکن کیونکہ مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اس لیے مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُس کے میناروں کی تعداد سات کر دی گئی۔ مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے جس کا قطر 33 میٹر اور بلندی 43 میٹر ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو ہاتھوں سے تیار کردہ 20 ہزار ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے جو ازنک میں تیار کی گئیں۔ دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔ مسجد میں شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔ مسجد کے اندر اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے قرآن مجید کی آیات کی خطاطی کی۔ مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ مسجد کے ہر مینار پر تین چھجے ہیں اور کچھ عرصہ قبل تک مؤذن اس مینار پر چڑھ کر پانچوں وقت نماز کے لیے اہل ایمان کو پکارتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ صوتی نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کی آوازیں قدیم شہر کے ہر گلی کوچے میں سنی جاتی ہے۔ نماز مغرب پر یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی بڑی تعداد بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہوتی ہے۔ رات کے وقت رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ و جلال میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

مسجد میں اس کے علاوہ سلطان احمد اول کی قبر،مدرسہ ، دارالشفا، بازار بھی موجوود ہیں۔

استنبول کو شہرِ مساجد کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں مشرقِ وسطیٰ کے کسی بھی شہر سے زیادہ تعداد میں مساجد موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ مساجد آمنے سامنے یا بہت کم فاصلے پر واقع ہیں۔ تا ایسی مساجد کی اذان میں تداخل نہ ہو، لہذا وہاں اذانِ دوگانہ یا مقامی زبان میں جفت اذان کی روایت جاری ہے۔

اس میں یہ ہوتا ہے کہ ایک مسجد کا مؤذن اذان کا کوئی کلمہ ادا کرتا ہے، اور جیسے ہی وہ خاموش ہوتا ہے اُس کے مقابل کی مسجد کا مؤذن اُسی کلمے کو دہراتا ہے۔ اس طرح بغیر تداخل کے دونوں قریبی مساجد کی اذانیں روانی سے ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس طرح کی اذان نسبتاً طویل اور اوسطاً آٹھ نو دقیقوں یعنی (منٹوں) پر محیط ہوتی ہے۔



متعللقہ خبریں