ترکی کا اُفق نو ۔ 10

ترکی میں شہری سیاست سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں پر کاری ضرب

447028
ترکی کا اُفق نو ۔ 10

دہشت گردی کے مسئلے نے بتدریج ایک مختلف ماہیت اختیار کر لی ہے۔ اس مسئلے کو سول سیاست کے ذریعے حل کیے جانے کے حوالے سے تمام تر حکومتی کوششوں کو دہشت گرد تنظیم نے مٹی میں ملا دیا ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت اور ترک رائے عامہ کی PKK دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہونے والی تمام تر سیاسی جماعتوں کے لیے چھوٹ اور مراعات اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔

حفاظتی تدابیر سے کوئی نتیجہ حاصل نہ کیے جا سکنے کا اندازہ کرنے پر جمہوری طریقوں کو بروئے کار لایا جانے لگا، لیکن یہ چیز بھی کار آمدثابت نہ ہو سکی۔ در حقیقت سول سیاست کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی خواہش کو منظر عام پر لایا جا سکناکسی قیمتی اثاثہ سے کم ثابت نہیں ہونا تھا۔

اسوقت صورتحال کو پیچیدگی دلانے والے دو معاملے پائے جاتے ہیں، جن میں سے معقول ترین طریقہ کار اور موقع کو تنظیم نے ضائع کر دیا ہے۔

دوسرا معاملہ PKK اور کردی مسئلے کے درمیان قائم کردہ مجبوری اسباب تعلق کے محض ایک خیالی پکاو ہو نے کی حقیقت کے آشکار ہونے پر مبنی ہے۔

ہم سب یا پھر ہر کس کے ذہن میں اس موضوع کے حوالے سے موجودہ بنیادی تصور کچھ یوں تھا: حکومت کے سرکاری نظریات کے باعث نسلی مسئلہ در پیش ہے اور یہ مسائل تشدد و شدت کے منبع کو تشکیل دیتے ہیں۔

یہ بھی خیال موجود تھا کہ مذکورہ مسائل کا خاتمہ ہونے سے دہشت گردی کا بھی قلع قمع ہو جائیگا، تا ہم ان مسائل کے خاتمے کے باوجود PKK کی دہشت گردی ختم نہ ہو سکی۔

اس کی وجہ کچھ یوں ہے یہ تنظیم کردی مسئلے کو حل کرنے کے لیے نہیں بلکہ حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے زیر مقصد قائم کی گئی تھی۔

آج ترکی کے جمہوری عمل کو فروغ دینے کے عمل کو سبوتاژ کرنے والا بنیادی اداکار اس تنظیم کا سیاسی بازو ہونے والی جماعت ہے۔ پہلے پہل یہ مسئلہ ڈیموکریسی موجود نہ ہونے کی بنا پر عدم حل کا شکار تھا تا ہم اب دہشت گردی کی جمہوری عمل کے میکانزم سے پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ حتی ڈیموکریسی کے خلاف خود کش حملوں کو بھی " ڈیموکریسی اور امن" کے نقاب کے ساتھ ہی سر زد کیا جاتا ہے۔

یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر مظہر باعلی کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔

ترک رائے عامہ نے سول سیاست کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیے جا سکنے کی استعداد کو آق پارٹی کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ہی دریافت کیا ہے۔ لوگوں نے مسائل کو جمہوری اور سیاسی طریقوں سے حل کیے جانے کو کافی سراہا اور اپنایا ہے۔ اس عمل سے انسانی زندگی میں کس قدر آسانیاں آنے کا انہوں نے بخوبی مشاہدہ کیا ہے۔

اس چیز کی تمثیلی مثال مذہبی ضمیر کے معاملات اور بالخصوص ہیڈ اسکارف کی آزادی ہے۔ ترک عوام نے سیاست کے ذریعے پیچیدہ ترین معاملات میں سے ایک بلکہ اکثر اخلاقی طور پر نہیں بلکہ ملکی انتظامیہ سے منسلک کیے جانے والے مسئلے کے طور پر حل کیے جانے کے بعد اب یہ سوچا تھا کہ کردی مسئلے کو بھی اسی طریقے سے حل سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔

در اصل ترک شہریوں نے کردی مسئلے کا حل تلاش کیا جائے کے نظریے کے ساتھ عوامی ڈیموکریٹ پارٹی کو ووٹ دیے تھے تو اس کے پیچھے ایک ناٹک کار فرما تھا۔ جس کا اصل مقصد عوام کو عدم حل کی آگ میں جھونکنا تھا۔

آیا کہ کیوں؟

کیونکہ PKK دہشت گرد تنظیم قوم کے سامنے اپنے اصل اہداف اور گندے عزائم کو آشکار کرنے سے قاصر ہے۔ خاصکرمقامی عوام سے خفیہ رکھنے وا لے ان کے کسی ایجنڈے کی موجودگی عیاں ہے۔ واقعی میں "PKK کیا چاہتی ہے؟" سوال کا جواب کیا کہ کردی ازم کے ساتھ دیا جا سکتا ہے؟ اس چیز کے جواب کا علم نہ ہونے کی اصل وجہ PKK کو کردی مسئلے کی آڑ میں رکھتے ہوئے بیک وقت کُردوں اور ان کے مادرِ وطن ترکی کے خلاف گھناونی کاروائیاں کرنا ہے۔

یہ کس کے لیے یا پھر کس کی طرف سے استعمال کی جا رہی ہے اس موضوع پر ہمارے پاس مطلوبہ سطح کی معلومات کا فقدان ہے۔ تا ہم ، ہم ایک چیز ضرور جانتے ہیں۔ PKK منتشر نہ ہونے کے لیے کردی مسئلے کو جاری رکھنے پر مبنی کسی حکمت عملی پر کار فرما ہے۔

یہ ایک نئی صورتحال/ معلومات ہیں اور اس کے لیے PKK کے خلاف دو شعبوں میں جدوجہد کامحاذ قائم کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ان کو آلہ کار بنانے والوں سے حساب و کتاب دریافت کرنا جبکہ دوسرا سیاسی سوچ کا معاملہ ہے۔

ترکی اس سے قبل دہشت گردی کے خلاف صرف اور صرف سیکورٹی قوتوں کے ذریعے جدوجہد میں مصروف تھا۔ اس نے آق پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد جمہوری عمل کے قیام کی بھی کوششیں صرف کیں۔ نیا ترکی سوچ و عقل کے ساتھ جدوجہد کرنے پر مجبور ہے۔ اس کو نظریاتی جنگ کر سکنے والی کسی ٹیم کی ضرورت در پیش ہے۔



متعللقہ خبریں