اسلامی تعلیمات 09

یوم آخرت پر ایمان

445172
اسلامی تعلیمات 09

یوم آخرت " سے مراد روز قیامت ہے۔

اس دن لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب و اور جزا کے لیے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔اس دن کا نام یوم آخرت اس لیے ہے کہ اس کے بعد کوئی دوسرا دن نہ ہوگا،کیونکہ تمام اہل جنت اور جہنم اپنے اپنے ٹھکانوں میں قرار پا چکے ہوں گے، اس دن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک ہے، جس کے بغیر کسی بھی بندہ کا ایمان قابلِ قبول نہیں ہے۔

آخرت کے دن پر ایمان تین امور پر مشتمل ہے

1. دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔دوبارہ اٹھائے جانے سے مراد دوسری بار صور پھونکتے وقت مردوں کو زندہ کرنا ہے،چنانچہ تمام لوگ بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں،بغیر لباس کے ننگے جسم،اور بغیر ختنوں کے اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوئے جائیں گے۔

2.ارشاد باری تعالیٰ ہے:جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے بے شک ہم پورا کرنے والے ہیں

دوبارہ اٹھایا جانا برحق اور ،کتاب اللہ ،سنت رسول سے ثابت ہے اور اجماع مسلمین سب اس کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:پھر تم اس کے بعد مرنے والے ہو پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔

اور نبی اکرم کا ارشاد ہے کہ "قیامت کے دن لوگوں کو ننگے پاؤں ،ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیا جائے گا۔"

اس کے اثبات پر مسلمان کا اجماع ہے اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے اور اپنے رسولوں کے ذریعے سے اس نے ان پر جو فرائض عائد کیے تھے،ان کی انہیں جزا دے۔

حساب و جزا پر ایمان لانا

یعنی بندے کے تمام اعمال کا حساب ہو گا اور اس کے مطابق اسے پورا بدلہ دیا جائے گا اور اس کے ثبوت پربھی کتاب و سنت اور اجماع مسلمین سب دلالت کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےبےشک ہماری طرف ہی ان کو لوٹ کر آنا ہے پھر ہمارےہی ذمہ ان کا حساب لینا اور جو کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اور نبی ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی نہیں کی،اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اُس کے لیے پوری ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور جس نے ارادہ نیکی کرنے کے بعد وہ نیکی کر لی تو اللہ تعالیٰ اس ایک نیکی کو اپنے ہاں دس گنا سے سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے اور جب کوئی کسی بدی کا ارادہ کر کے اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں ایک مکمل نیکی لکھ دیتا ہے،پس وہ بدی پر عمل بھی کر گزرے ،تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں صرف ایک ہی بدی لکھتا ہے۔

قیامت کے روز تمام انسانی اعمال کے حساب کتاب اور ان کی جزا و سزا کے اثبات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل کیں،رسول بھیجے جو احکام شریعت وہ لائے تھے انہیں قبول کرنا اور ان میں سے جن احکام پر عمل کرنا واجب تھا،ان پر عمل کرنا بندوں پر فرض کیا۔جو لوگ اس کی شریعت کے مخالف ہیں،اُن کے ساتھ قتال کو واجب قرار دیا ،ان کے خون ،ان کی اولاد،ان کی عورتوں اور ان کے مالوں کو حلال قرار دیا۔تو اگر ان تمام اعمال کا حساب کتاب ہی نہ ہو اور نہ ان کے مطابق جزا و سزا دی جائے تو یہ تمام احکام بے کار اور مہمل قرار پاتے ہیں حالانکہ تمام جہانوں کا پروردگار تو ہر عبث چیز سے منزہ ہے،

جنت اور جہنم پر ایمان لانا

یعنی یہ دونوں مخلوق کے ابدی ٹھکانے ہیں،سو جنت نعمتوں کا گھر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تقوی اختیار کرنے والے ان مومنوں کے لیے بنایا ہے جو ان چیزوں پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ نے ان پر واجب ٹھہرایا ،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ سے مخلص اور اس کے رسول کے سچے پیروکار رہے۔ان کے لیے جنت میں طرح طرح کی نعمتیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےبے شک جولوگ ایمان لائے اورنیک کام کیے یہی لوگ بہترین مخلوقات ہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں ہمیشہ رہنے کے بہشت ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے الله ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہ اس کے لئےہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ:

:"اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار گئی ہے

اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہےبے شک الله نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے دوزخ تیار کر رکھا ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار جس دن ان کے منہ آگ میں الٹ دیے جائیں گے کہیں گے اے کاش ہم نے الله اور رسول کا کہا مانا ہوتا


متعللقہ خبریں