اسلامی تعلیمات08

سرور کونین کی طلسماتی شخصیت

440181
اسلامی تعلیمات08

اللہ جلّ جلالہ نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بن سکتا ہے، نہ آئے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے اَنوَر، سب سے ابہا، سب سے آعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ کی۔ شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس وہ ان الفاظ کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ تبارک وتعالیٰ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اُس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہِیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اُس جمال کی تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔

آپ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست تھا، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا، گھنگریالے بال تھے جیسے ساکن پانی پر ہلکی ہلکی موجیں ایک حُسن پیدا کرتی ہیں ایسے آپ کے بال نیم گھنگریالے تھے، آپ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی تھی، آنکھ مبارک کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کی آنکھیں لمبی، خوبصورت، سرخ ڈوروں سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انہتائی سفید، آپ کی پلکیں بڑی دراز، آپ کی ناک مبارک کے بارے میں آتا ہے آگے سے تھوڑا اُٹھا ہوااور نتھنوں سے باریک ، ایک نور کا ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا ، آپ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ ،تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انہتائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں خلاء تھاجب آپ مسکراتے تھے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرئے ہوئے ، چہرہ چودهویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی،

اُمِّ مبارک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں " میں نے ایک نوجوان دیکھا بڑا صاف ستھرا، حسین سفید چمکتا چہرہ، جیسے کلیوں میں ایک تازگی ہوتی ہےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ چمکتا تھا نوخیز کلیوں کی طرح، اورفرماتی ہیں نہ آپ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں جچے نہیں اور نہ ایسے دبلے اور کمزور تھے کہ بےرعب ہوجائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسیم وقسیم تھے۔


آپ خوش نما سفید رنگ والے ہیں، آپ کی برکتوں سے پانی طلب کیا جاتا ہے، آپ یتیموں پر رحم کرنے والے اور بیواؤں کی حفاظت کرنے والے ہیں،آل ہاشم کے ہلاک ہونے والے لوگ آپ کے پاس آکرٹھہرتے ہیں، تو وہ آپ کے پاس خوش عیشی اور فضائل میں ہیں،آپ حق کےترازوہیں ، ایک جو کی بھی کمی نہیں کرتے اور انصاف کے ساتھ وزن کرنے والے ہیں،آپ کا وزن کرنا ذرا بھی زیادتی نہیں کرتا۔

آپ سب سے زیادہ سخی اور جواد تھے، کبھی آپ نے سوال کے جواب میں 'لا' نہیں فرمایا، جود وسخا کا زیادہ زور ماہِ رمضان المبارک میں ہوتا تھا۔دینار ودرہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ میں رات کو گذارا نہیں کر سکتے تھے، اگر کبھی کچھ بچ گیا اور لینے والا نہیں مل سکا اور اسی حالت میں رات ہوگئی ، تو آپ شب باشی کے لیے دولت خانہ پر تشریف نہیں لاتے تھے۔ جب تک وہ بچا ہوا کسی حاجت مند کو دے کر فارغ البال نہ ہوجاتے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرماتے آپ اس میں صرف (سال بھر کے خرچ کے لئے ) اتنی مقدار رکھ لیتے جو آپ کے لئے انتہائی ضرورت کی حالت میں کفایت کرتی، وہ بھی بہت معمولی درجہ کی چیز، جیسے کھجور، اور جو اور باقی سب کا سب اللہ کی راہ میں صرف فرماتے اور اپنی ذات کے لئے بطور ذخیرہ کچھ بھی نہ رکھتے تھے، پھر اپنے اہل خانہ کی بقدر حاجت روزی میں سے بھی ایثار فرماتے، حتی کہ بسا اوقات سال بھر گذرنے سے بھی پہلے ہی پہلے احتیاج ہوجاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سچے، سب سے زیادہ پابند عہد، باوفا، سب سے زیادہ نرم طبیعت تھے، آپ کا قبیلہ سب سے زیادہ با کرامت تھا، آپ مخدوم ومطاع تھے کہ خدام خدمت کے متمنی اور اطاعت کے لیے بسر وچشم حاضر تھے۔

آپ ترش رو، سخت مزاج نہیں تھے۔ آپ عظیم القدر اور معظم تھے، سب سے زیادہ حلیم تھے۔ پردہ نشین کنواری سے زیادہ باحیاء تھے، کسی کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے، نیچی نگاہ رکھتے تھے، نظر مبارک زمین کی طرف زیادہ رہتی تھی، آسمان کی طرف کم اٹھتی تھی، سب سے زیادہ متواضع ، منکسر المزاج تھے، غنیّ، فقیر، شریف، ادنیٰ، حُرّ، عبد، جو بھی دعوت پیش کرتا قبول فرمالیتے، فتح مکہ کے روز جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے والد کو قبول اسلام کے واسطے خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے، تو ارشاد فرمایا کہ: ان بڑے میاں کو کیوں تکلیف دی !ان کو وہیں رہنے دیتے، میں خود ان کے مکان پران کے پاس چلا جاتا۔ جواب میں عرض کیا کہ : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجا ئیں ،اللہ کے رسول کی خدمت میں حا ضر ہونے کی سعادت کے یہی زیا دہ مستحق ہیں ۔



متعللقہ خبریں