ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔08

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔08

437900
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔08


17 فروری بدھ کے روز انقرہ میں بموں کیساتھ لدی ہوئی ایک گاڑی کیساتھ کیے گئے مذموم حملے میں 28 افراد ہلاک اور 62 زخمی ہو گئے۔ صدر رجب طیب ایردوان نے انقرہ میں دہشت گردوں کیطرف سے فوجی ملازمین کی ایک سرو س بس پربم حملے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی حملوں کا مرتکب ہونے والے دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنےوالی قوتوں کیساتھ ہماری جدوجہد پورے عزم کیساتھ جاری رہے گی ۔ہمارے اتحاد ویکجہتی اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ ایسے حملوں سے ہمارے عزائم متزلزل نہیں ہوں گے بلکہ ہمارا عزم مزید پختہ ہو جائے گا ہے۔ترکی اپنے حق مدافعت کو ہر وقت، ہر مقام اور ہر حال میں بلا جھجھک استعمال کرئے گا ۔ دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ملک اور قوم کو ہدف بنانے والےاور ہمیں اپنے اہداف سے دور کروانے کی کوشش کرنے والے اپنے مقاصد میں کھبی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔صدر ایردوان نے یہ بیان حالیہ کچھ عرصے سے شام میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں دیا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اس بیان کا ہدف روس اور امریکہ ہیں ۔ ترکی اور امریکہ کے تعلقات کو دوسری جنگ عظیم کے بعد فروغ حاصل ہوا تھا ۔ ترکی 1952 میں نیٹو کا رکن بنا ۔نیٹو میثاق میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ فوجی بھیجنے والا ملک ہے لیکن حالیہ چار برسوں سے امریکہ کے رویے سے ترکی کو سخت مایوسی ہوئی ہے ۔

2013 میں مصر کے انتخابات کے ذریعے منتخب کیے جانے والے صدر محمد مرسی کو فوجی انقلاب کے ذریعے ہٹانے کے عمل میں امریکہ کی عدم دلچسپی حتیٰ کہ فوجی انقلاب کومشروع قرار دینےوالے موقف پر ترکی نے نکتہ چینی کی تھی ۔

ترکی کے لیے مایوسی کا باعث بننے والے دوسرے واقعے کا تعلق علاقائی اور عالمی طاقتوں کی شمولیت سے جنگ میں بدلنے والےشامی بحران کی آغاز سے ہی غیر مساوی تشدد اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی حد تک پہنچ جانے کے باوجود امریکی انتظامیہ کیطرف سے مسئلے کو حل کروانے سے گریز کرنے کی پالیسی سے ہے ۔ 2014 میں عراق اور شام میں زور پکڑتی ہوئی دہشت گرد تنظیم داعش کی کاروائیوں کے نتیجے میں امریکہ نے شام کی کردی تنظیم پی وائے ڈی اور اس کی مسلح شاخ وائے پی جی کیساتھ قریبی رابطہ قائم کیا جو ترکی کے لیے سنگین مسئلہ تشکیل دیتا تھا کیونکہ اس تنظیم کے ترکی کی علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم پی کے کے کیساتھ روابط موجود ہیں اور یہ تنظیم 1970 سے ترکی کیخلاف دہشت گردی میں ملوث رہی ہے جس کی وجہ سے ترکی نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے ۔ ترکی کی نظر میں پی وائے ڈی اور وائے پی جی شام میں پی کے کے کی شاخیں ہیں ۔

حالیہ ایک سال سے امریکہ اور اکتوبر 2015 سے روس کیطرف سے حمایت حاصل کرنے والی پی وائے ڈی کے اپنے دائرے کو وسعت دی ہے جسے ترکی اپنے لیے خطرے کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ حالیہ دو ہفتوں میں ترکی اور امریکہ کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں ۔ شام میں صدر اسد کے مخالفین پر روسی حملوں سے پی وائے ڈی اور وائے پی جی کے لیے موزوں ماحول پیدا ہوا ہے ۔ اس تنظیم نے ترکی کی شام سے ملحقہ پوری سرحد کو اپنے کنٹرول میں لیتے ہوئے کاروائیاں شروع کر دی ہیں ۔ امریکہ کیطرف سے پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے باوجود پی وائے ڈی کی حمایت کرنے سے اس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ۔ تنظیم نے ترکی کے اعتراض کے باوجود مخالفین کے زیر کنٹرول میناگ ہوائی اڈے اور تل رفات قصبے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور یہ تنظیم عازیز کی جانب تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہے ۔ میناگ ہوائی اڈے کو خالی نہ کرنے کیوجہ سے ترکی نے توپوں کیساتھ شام کے پی وائے ڈی اور وائے پی جی کے ہدفوں پر بمباری کی ۔ترک حکام نے ان تنظیموں کی مدد کرنے کیوجہ سے پش پناہی کرنے والے ممالک خاصکر روس پر نکتہ چینی کی ۔ اسد قوتوں کی بری کاروائی کی فضا سے مدد کی گئی جس کے نتیجے میں حلب کے جوار میں مخالفین قوتوں پر حملے کرنے والے روس نے اسکولوں ہسپتالوں اور دیگر سول اور فوجی اہداف پر بمباری کی ۔ اسد انتظامیہ کو بر سر اقتدار رکھنے کے لیے روس نے حالیہ چار ماہ میں 27 اسکولوں پر بمباری کی اور سینکٹروں شہریوں کو ہلاک کیا ۔ اس نے پی وائے ڈی کیخلاف تدابیر اختیار کرنے کی وجہ سے سلامتی کونسل سے ترکی کی شکایت کی ۔ ترکی کی نظر میں روس پی وائے ڈی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والی ایک طاقت ہے ۔

شام میں شہریوں پر حملوں اور اسد انتظامیہ کی حمایت کے علاوہ روس نے عربوں اور ترکمینوں کو اپنے گھر بار ترک کرنے پر مجبورکیا ہے ۔ یہ صورتحال ترکی کے لیے ناقابل قبول ہے ۔ پی وائے ڈی کے میدان میں آنے کے بعد علاقے کے نسلی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی غرض سے ہزاروں انسانوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے ۔روس کے داعش پر حملوں کا دعوے کے باوجود اس نے داعش کے خلاف بہت کم کاروائیاں کی ہیں ۔

روس نے ترکی کی جانب سے حلب کی طرف گامزن مخالفین کی گزرگاہ کو بند کرنے کے لیے ان حملوں کا آغاز کیا تھا ۔ پی وائے ڈی نے روس کے منصوبے کی حمایت اور اپنے مفادات کی غرض سے حملے شروع کیے تھے ۔ اس صورتحال کے باعث ترکی نے دو راستے اختیار کیے ۔ پہلا یہ کہ ترکی نے امریکہ کو اس بات پر رضامند کروانے کی کوشش کی کہ پی وائے ڈی ترکی کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔ ترکی نے پی وائے ڈی کی پیش رفت کو رکوانے کے لیے فوجی تدابیر اپنائیں۔امریکہ نے پی وائے ڈی کے معاملے میں ترکی سے اتفاق رائے نہ کیا ۔سلامتی کونسل میں اتفاق رائے سے ترکی کیخلاف جو اختیاری فیصلہ کیا گیااس نے سیاسی نقطہ نظر سے ترکی کی جارحیت کو روکنے کی قوت پر منفی اثرات مرتب کیے ۔ اس صورتحال کے بعدانقرہ میں فوجی ملازمین کی بس پر جو حملہ کیا گیا اس پر حکومت ترکی نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے ۔

عالمی مسائل میں دہشت گردی کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ تمام ممالک کی یکجہتی سے ہی دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے ۔ بصورت دیگر تما م مالک کو دیر یا بدیر دہشت گردی کی بلا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ترکی جو 35 سال سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے عالمی برادری سے دہشت گردی کیخلاف پر عزم اور اعتدال پسند موقف اپنانے کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے ۔



متعللقہ خبریں