ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔07

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔07

433524
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔07



تقریباً پانچ سال قبل عالم عرب میں آمرانہ نظام کیخلاف بہار عرب کے نام سے بغاوت کی ہوائیں چلنے لگیں ۔ سب سے پہلے تیونس کے جنوبی علاقے میں عوامی بغاوت شروع ہوئی جس کے ایک ماہ بعد ڈکٹیٹرسربراہ زین العابدین ملک کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے۔

تیونس سے شروع ہونے والی بہار عرب نے مصر،لیبیا،یمن ،بحرین اور شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ آغاز میں اس تبدیلی سے مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے بارے میں امید کی کرنیں روشن ہوئیں لیکن پہلی کامیابی کے بعد علاقے میں فلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مصر میں انتخابات کیساتھ بر سر اقتدار آنے والی حکومت کو فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کر دیا گیا ۔اس انقلاب کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں کو جیل میں بند کر دیا گیا ۔ ڈکٹیر نظام کے خاتمے کے بعد لیبیا اور یمن میں نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی شروع ہوئی ۔بحرین نے ہمسایہ ممالک کی مدد سے مشکل کیساتھ بغاوت پر قابو پایا ۔ دوسری طرف شام میں صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی ہوئی اور شروع ہونے والی خانہ جنگی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے اور کئی میلین اپنے گھر بار ترک کرنے پر مجبور ہوئے ۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق بجانب مطالبات کیساتھ ہونے والی معاشرتی بغاوتوں سے حالیہ بحران پیدا ہوا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ تنہا ڈکٹیٹروں کو اقتدار سے ہٹانا ناممکن ہے۔ ہر طرح کے نظم و نسق کو متعین امور کو سرانجام دینے والے اداروں کے قیام اور معاشرے میں اعتماد کی فضا بحال کرنے سے ہی بخوبی چلایا جا سکتا ہے ۔خاصکر 2003 میں عراق میں امریکی مداخلت کے تلخ نتائج میں سے ایک یہی ہے ۔ اکثر اوقات ڈکٹیٹر وں سے نجات حاصل کرنے کی غرض شروع ہونے والی سول مزاحمتی تحریکیں اداروں کی اہمیت کو سوچے سمجھے بغیر حرکت میں آتی ہیں حالانکہ ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانا محض آغاز ہوتا ہے ۔

بہار عرب سے متاثرہ ممالک میں سے تیونس میں اسوقت امن و امان قائم ہے ۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ تیونس کے عبوری دور میں جو عناصر موثر ثابت ہوئے ہیں ان میں تیونس کی فوج کا سیاست میں حصہ نہ لینا ہے ۔اس نے عوامی انتشار کے دوران اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ تیونس میں دیگر عرب ممالک سے زیادہ طاقتور سول سوسائیٹیز موجود ہیں ۔ 2013 میں سیاسی شخصیات کے قتل کیوجہ سے قطب بندی کے دور میں اور آئین کی تیاری کے دوران پیدا ہونے والے اختلافات کو دور کروانے میں سول سوسائیٹیز نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ملک میں موجود لیبر یونینز،آجروں کی تنظیموں اور بار ایسوسی ایشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیاسی قطب بندی کو دور کرواتے ہوئے ان کے درمیان مذاکرات شروع کروانے میں ان کا انتہائی اہم ہے ۔ اس دور میں ال نہدا پارٹی کا کردار بھی قابل تعریف ہے ۔ 2011 سے پہلے اس پارٹی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے لیڈر کو جلاوطن کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود ال نہدا پارٹی نے دیگر اسلامی تحریکوں کے برعکس ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ مذاکرات کرتے ہوئے مشترکہ زمین ہموار کی ۔ اس کے نتیجے میں بن علی اقتدار کے خاتمے کے بعد پارٹی نے پہلے انتخابات کے بعد دو سیکولر پارٹیوں کیساتھ اتحاد کیا تھا ۔ 2014 کے عام انتخابات میں ناکامی کے بعد پارٹی نے اپنی ناکامی کو قبول کرتے ہوئے کامیاب پارٹی کیساتھ روابط کو جاری رکھا ۔

بن علی کے ملک کو ترک کرنے کے بعد فروری 2011 میں مصر میں صدر حسنی مبارک مستعفی ہوئے، اکتوبر میں لیبیا کے لیڈر معمر قذافی ہلاک ہوئے اور فروری 2012 میں یمن کے سربراہ علی عبداللہ صالح نے اپنے ملک کو ترک کر دیا ۔ ایک سال میں چار ڈکٹیٹروں کو اقتدار سے ہٹایا گیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ لیبیا کے سوا دیگر ممالک میں سول مزاحمت کامیاب رہی لیکن بعد کے حالات نے ان کامیابیوں پر کاری ضرب لگائی ۔

جولائی 2013 میں مصر میں فوجی انقلاب کے نتیجے میں اخوان المسلمین اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے لیڈر کیڈر اور ہزاروں حامیوں کو قید میں ڈال دیا گیا۔ لیبیا اور یمن نے اپنے آپ کو خانہ جنگی میں پایا۔ 2011 سے پہلے صدر حسنی مبارک نے طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے جان بوجھ کر کمزور اداراتی ڈھانچے کو ترجیح دی تھی لیکن اس کی فوج مضبوط تھی لہذا مبارک کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد فوج نے انتظامی فقدان کو پورا کیا ۔اس کے مقابلے میں مصر اور یمن میں اداراتی ڈھانچے کیساتھ ساتھ فوج بھی کمزور تھی جس کی وجہ سے ڈکٹیٹر نظام کے خاتمے کے بعد فوج ملک کو متحد نہ کر سکی اور ان ممالک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔

اسی دور میں شام اور بحرین میں طاقتور حزب اخلاف کے باوجودڈکٹیٹر سربراہان نے اقتدار نہیں چھوڑا جس کیوجہ سے یہاں کے حالات دیگر ممالک سے مختلف رہے ۔ بحرین میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں ال خلیفہ خاندان مزید طاقتور بن گیا لیکن شام خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔

بد تر صورتحال یہ تھی کہ عراق میں امریکی قبضے کے بعد منظر عام پر آنے والی دہشت گرد تنظیم داعش نے نظم و نسق کے فقدان کے علاقوں پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھایا۔ حالیہ پانچ برسوں میں رونما ہونے والے واقعات سے جو نتائج سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ سول مزاحمت بعض اوقات ڈکٹیتر نظام کی بنیادوں کو ہلا دینے کی طاقت رکھتی ہے لیکن فوجی طاقت کے فقدان کو پورا کرنے کی حد تک طاقتور نہ ہونے یا ڈکٹیٹر نظام کے حامیوں کی موجودگی کی صورت میں یہ ناکافی ثابت ہوتی ہے ۔ سول طاقت کے نظام کو نقصان پہنچانے کی صورت میں سول تحریکوں کے منظر عام پر آنے والی صورتحال اور اس کے سنجیدہ نتائج کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ کسی نظام کیخلاف مزاحمت شروع کرنے سے پہلےملک کو چلانے کے لیے کسی مشترکہ پلان کی عدم موجودگی میں سول مزاحمت بذات خود بحران کا ایک حصہ بن جا تی ہے ۔

طرز حکومت کیخلاف حزب اختلاف کی طور پر حرکت میں آنے والی سول تحریکوں کے ایک دوسرے کیساتھ روبط کو جاری رکھنے اور مشترکہ موقف اپنانے کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔تدریجی اور اصلاح پسندی خاصکر کمزور اداراتی ڈھانچہ رکھنے والے معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں سے بڑھ کر حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ بصورت دیگر نظم و نسق کے فقدان کیوجہ سے جو گروپ طاقتور ہوگا وہ اس خلاء کو پُر کرئے گا ۔

بعض حلقے عرب بہار کا عرب سردی کی نظر سے جائزہ لے رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ معاشرتی انتشار وقتی واقعہ نہیں ہے ۔ آغاز میں سیاسی پروگرام نہ رکھنے والی اقوام کے بعض حق بجانب معاشرتی مطالبات موجود تھے ۔ ان کے مطالبات کو پورا نہ کرنے سے مسلسل نئی مزاحمتوں نے جنم لیا ۔ نتیجتاً بہار عرب کو وقتی معاشرتی بحران کے بجائے مستقبل میں بھی جاری رہنے والا ایک عمل کہا جا سکتا ہے ۔



متعللقہ خبریں