ترکی کا افق نو

پہلی جنگ عظیم کے بعد کی صورتحال

423428
ترکی کا افق نو

اس موضوع پر کسی پیش قدمی کو حاصل کر سکنے کے لیے سماجی شعور کافروغ، تیکنیکی امکانات کو مطلوبہ سطح تک لایا جانا اور مستقبل کے لیے کسی نقطہ نظر کی موجودگی لازم و ملزوم ہیں ۔مستقبل کے نقطہ نظر سے عاری کوئی بھی معاشرہ کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کر سکتا اور نہ ہی ترقی حاصل کر سکتا ہے ۔ معاشروں کو متحرک بنانے والا اہم ترین معاملہ انسانوں کے کسی خواب و سوچ کا مالک ہونا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکہ میں نسلی تفریق کو سیاہ فاموں کے دلوں پر نقش کردہ ایک خواب کے ساتھ نکتہ پذیر کیا ہے۔

مملکت ،انسانوں کی معاشرے کے اندر ضروریات کو پورا کرنے کے زیر مقصد معرض وجود میں آنے والے ادارے ہیں۔ اس ڈھانچے کی کوئی خاص آئیڈیالوجی سنگین مسائل کے جنم پانے کا موجب بنتی ہے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم کے بعد قومی آئیڈیالوجی پر قائم کردہ مملکتوں کی اکثریت بعد ازاں اس ڈھانچے و ساخت سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔

اکثریت کے متضاد اور متبادل کے طور پر واحدانہ شناخت کے تخیل کے لیے قومیت کا عنصر بنیادی ڈھانچے کی ماہیت اختیار کر گیا۔

قومی مملکتوں نے فطری طور پر اپنے سرمائے کو نکھارنے کے لیے وسیع پیمانے کی کوششیں صرف کیں۔ در اصل عالمی مملکتیں پہلی جنگ عظیم کے بعد شاید سب سے زیادہ انہضام اور مدغم ہونے کی پالیسیوں کو فروغ دینے میں بر سر پیکار رہیں۔

بعد ازاں دنیا کی دیگر تبدیلیاں اس شعبے میں نئی مملکتوں کی سرکاری آئیڈیالوجی کے ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں لانے کا موجب بنیں۔حتی کئی مملکتوں نے کسی سرکاری آئیڈیالوجی کے مالک ہونے کو مسترد کرتے ہوئے مختلف سیاسی میکانزم کو تشکیل دیا۔

مشرقی بلاک کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ دنیا میں تبدیلیاں مقامی متحرک پن اور ثقافتی اثرات کے زیر اثر چلی گئیں۔ مقامی ثقافتوں، اعتقاد اور شناخت نے انسانوں کے لیے ایک اہم ریفرنس کی ماہیت اختیار کرنی شروع کر دی۔

یہ صورتحال شاید جدید ادوار کے متضاد اور مشکل ترین معاملات میں سے ایک کی حیثیت اختیار کر گئی۔

ایک جانب سے موجودہ تیکنیک اور رابطے کی بدولت کسی عالمی گاوں کی ماہیت کی حامل نئی دنیا میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے کی طرح دکھائی دینے والے انسان اپنے مخصوص وجود کو بھی منظر عام پر لانے کے خواہاں ہیں ۔

انسانوں نے تمام تر دنیا میں ہر گزرتے دن عام ہونے والی انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے اور ایک ہی طریقے سے کرہ ارض کی جانب دیکھنے سے ایک دوسرے سے مشابہت حاصل کرنی شروع دی ہے۔ یہ صورتحال انسانوں کی منفرد شناختوں اور وجود کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ شخصیت اور شناخت کے خلاف ہونے والے ان خطرات کے سامنے لوگ شاید زیادہ تر جان بوجھ کر نہیں بلکہ فطری طور پر اپنی منفرد شخصیت کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔

یلدرم بیاضت یونیورسٹی کی فکلیٹی آف ہیومینیٹز اینڈ سوشل سائنسز کے شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر مظہر باعلی کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے۔

انسانوں اور جدت پسندی ، انسان و مملکت کے درمیان گہرا تعلق ہونے والی عصر حاضر کی دنیا میں کائناتی قانونی اصولوں پر مبنی بنیادی سماجی معاہدوں اور آئین پر اتفاق قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جدید دنیا نے اس تضاد کو کسی سماجی معاہدے کے حامل آئین کو تشکیل دینے والے قوانین کی بدولت دور کیا ہے۔ انہوں نے موجودہ متن سے تجاوز کرنےوالی آزادی اور شفافیت پر مبنی ارادوں کو رائے عامہ کے نظام میں کسی بنیادی اصول کا درجہ حاصل کیا۔

آیا کہ ہم اسے کسی نئی دنیا سے تعبیر کر سکتے ہیں؟ فطری طور پر جی ہاں کر سکتے ہیں اور نئی دنیا کے بنیادی موقف کو تضادات کے حامل کسی تصادم کی ماہیت اختیار کرنے کا سد باب کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی دلالت ہے۔

یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخ ِ انسانی بیک وقت تصادم و تضادات پر مبنی ہے۔ تا ہم ہر تضاد کے تصادم کی شکل اختیار کرنے کی طرح کا کوئی اصول بھی نہیں پایا جاتا۔ ویسے بھی انسانوں کا کرہ ارض میں سحر انگیز وجود تضادات پر مبنی خونی تصادم کی شکل اختیار کیے بغیر کسی عالمی نظام کو چلانا ہے۔

اس بنا پر اہم ترین مملکت، تضادات کے درمیان کسی جج کا کردار ادا کرنے والی ایک مملکت ہے۔ ریاستوں کے بنیادی اصولوں اور فنکشنز معاشروں کی ضروریات اور مطالبات کو جمہوری اور شفاف طریقوں سے پورا نہ کرسکنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

حتی اس معاملے کو اس سے قبل بحث چھیڑے جانے والے سماجی سمجھوتوں کے نظریے کے ساتھ بھی بیان کیا جانا ممکن ہے۔ اب مملکتوں کے آئین بیک وقت ریاست اور معاشرے کے درمیان مطابقت کی خاطر تشکیل پانے والے معاہدوں کا دوسرا نام ہے۔

عصر حاضر میں مملکتوں کے نہ صرف آئین بلکہ بیک وقت قیام کے معاہدوں نے بھی اہم سطح کی اہمیت و ماہیت حاصل کرنی شروع کر دی ہے۔

ان تمام تر مطابقتوں اور ہم آہنگیوں کا بنیادی مقصد اپنی مرضی کے عمل درآمد سے چھٹکارا پانا ہے۔

ریاست کے قوانین سے باہر نکلنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا اور قوانین پر عمل پیرا نہ ہونے والے شہریوں کو سزا دینا عوام کے نام پر کیا جاتا ہے۔

ترکی نے اپنے ماضی کے کسی بھی دور میں سماجی خواہشات اور ترجیحات کی بنیادوں پر اپنا آئین تشکیل نہیں دیا۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی ملک کی عوام کی طرف سے وضع کردہ کوئی مخصوص آئین اور قیام کا معاہدہ موجود نہیں ہوتا تو فطری طور پر وہاں کا معاشرہ اپنے مسائل کو عوامی ارادے کے ساتھ نہیں بلکہ بیوروکریسی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ در حقیقت ہمارے ملک میں بھی قدیم مسائل کو سول سیاست کی بدولت حل کیے جانے کی ضرورت کا نظریہ جانبر ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بنیادی طور پر کسی سیاسی وسماجی مسئلے کی حیثیت رکھنے والا کردی مسئلہ سیاستدانوں کی جانب سے طویل عرصے سے ذکر بھی نہ کیے جانے والا ایک معاملہ تھا۔ نیا ترکی مسائل کو سول سیاست کے ذریعے حل کرنے والا اور امن و بھائی چارے کے ماحول میں زندگی بسر کرنے کے ماحول کو پیدا کرنے والے ایک نئے آئین کو تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔



متعللقہ خبریں