کوچہ فن و ادب - 43

کراچی میں امن ہو، موسم بھی خوشگوار ہو اور مشاعرہ برپانہ ہو۔اس شہر کا مزاج اتنا غیر شاعرانہ بھی نہیں۔اگرچہ مشتاق احمد یوسفی کہہ چکے ہیں کہ کراچی کے مزاج اور محبوبہ کے مزاج میں کوئی فرق نہیں

361559
کوچہ فن و ادب - 43

کراچی میں امن ہو، موسم بھی خوشگوار ہو اور مشاعرہ برپانہ ہو۔اس شہر کا مزاج اتنا غیر شاعرانہ بھی نہیں۔اگرچہ مشتاق احمد یوسفی کہہ چکے ہیں کہ کراچی کے مزاج اور محبوبہ کے مزاج میں کوئی فرق نہیں ۔بدلنے میں دیر نہیں لگتی لیکن ہرسال منعقد ہونے والے مشاعروں کی روایت ایسی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
سال کے آغاز میں ساکنانِ شہر ِ قائد کا عالمی مشاعرہ منعقد ہونا تھا لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دیا گیا۔جمود کی یہ صورتحال کراچی پریس کلب نے توڑی اور چوبیس سال بعد آل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کیا جس میں نامور شعراء کشورناہید، امجداسلام امجد، پیرزادہ قاسم، فہمیدہ ریاض، عباس تابش اور پروفیسر عنایت علی خاں نے شرکت کی۔
کراچی پریس کلب میں مشاعرہ ہو اورآرٹس کونسل آف پاکستان پیچھے رہ جائے ۔یہ بھی ممکن نہیں تھا، سو اس کے اگلے دن آرٹس کونسل میں بھی کل پاکستان مشاعرہ ہوا جس میں لگ بھگ انہی شعراء نے شرکت کی جو کراچی پریس کلب کے مشاعرے میں شریک تھے۔کراچی پریس کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے اعزازی اراکین میں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے نابغہ ء روزگار شعراء شامل رہے ہیں۔پریس کلب کی گورننگ باڈی کے زیراہتمام ایک ادبی کمیٹی بھی کام کرتی ہے جس کے تحت باقاعدگی کے ساتھ ادبی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
کراچی کے مشاعروں میں شرکت کے بعد امجداسلام امجد نے لکھا "پریس کلب کے مشاعرے کی خوشبو میں لپٹا لپٹایا اگلی شام آرٹس کونسل پہنچا تو وہاں یہ خوشبو پہلےسے موجود تھی۔ ایک میلے کا سا عالم تھا معلوم ہوا کہ احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے تقریبات کا ایک ایسا گلدستہ سجا رکھا ہے کہ جس میں ہر رنگ کے پھول ہیں اور اتنی کثرت سے ہیں کہ صبح سے شام تک آرٹس کونسل کا علاقہ ان میں حصہ لینے والے لوگوں سے مہکا رہتا ہے۔ مشاعرہ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا سامعین کی تعداد کم ہوتی گئی۔ انور مسعود نے میرے کان میں کہا، لگتا ہے ہماری باری آنے تک صرف منتظمین حضرات ہی باقی رہ جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لوگ کم ضرور ہوئے لیکن جو بیٹھے رہے وہ ایسے سخن شناس تھے کہ ایک ایک دس دس پر بھاری تھا۔ سو سنانے کا بھی مزا آیا اور اس بات پر مزید خوشی ہوئی کہ اس پیارے شہر کی بہاریں پھر لوٹ رہی ہیں"۔
جی ہاں کراچی کی بہاریں لوٹ رہی ہیں اور ساکنان ِ شہر ِ قائد کا ملتوی شدہ عالمی مشاعرہ بھی گزشتہ دنوں برپا ہو گیا۔جس کی شہرت مشاعرے سے زیادہ ایک میلے کی سی ہے جہاں اہلیان ِ کراچی اپنی فیملیز کے ساتھ آتے ہیں اور عشاء سے لے کر فجر تک شعروسخن کے چلے میں بیٹھ کر دل ودماغ کی بالیدگی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔روایت کے مطابق شہر قائد کے عالمی مشاعرے کے بعد کئی ایک ذیلی مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں جن کی بڑی کشش بھارت سے آنے والے شعراء کی شرکت قرارپاتی ہے۔لیکن اس دفعہ نہ تو بھارتی شعراء کراچی آئے اور نہ ہی ذیلی مشاعرے برپا ہوئے۔
خود عالمی مشاعرہ بھی کچھ پھیکا پھیکا ہی رہا۔سامعین تو بہت تھے لیکن شعراء اپناکلام ان تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ہمیشہ داد لینے والے شاعر بے داد رہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بڑے بڑے بت اس مشاعرے میں گرتے چلے گئے البتہ افتخار عارف، رحمان فارس اور اعجاز رحمانی نے اپنا رنگ خوب جمایا۔اس قسم کے مشاعروں میں ترنم سے اپنا کلام پیش کرنے والے شعراء کامیاب رہتے ہیں لیکن اس مرتب کسی کے ترنم کا جادو بھی نہیں چل سکا۔
جب کسی طور نہ شعروں پہ اسے داد ملی
وہ ریاکارترنم پہ اُتر آیا ہے
لیکن اب کی بار یہ ریاکاری بھی کسی کےکام نہیں آئی۔معروف شاعر انور شعور کا کہنا ہے کہ بھارت سے گلوکارقسم کے شاعروں کو یہاں بلابلا کر مشاعرے کی فضا کو خراب کر دیا گیا ہے۔اگلے کچھ دنوں میں آرٹس کونسل آف پاکستان کی عالمی اردو کانفرنس ہونے والی ہے ۔سالانہ بنیاد پر ہونے والی اس کانفرنس میں عالمی مشاعرہ بھی منعقد ہوتا ہے جس کی آواز بہت دور دور تک جاتی ہے لیکن شہرقائد کے عالمی مشاعرے کے پھیکے پن کو دیکھتے ہوئے آرٹس کونسل کو ابھی سے اپنے مشاعرے کی کامیابی کے انتظامات کرنا ہوں گے نہیں تو یہ مشاعرہ بھی ناکامی سے دوچار ہو سکتا ہے۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں