کوچہ فن و ادب - 40

ارشاد سے پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی کچھ یاد نہیں پڑتا۔شاید یہ اَسی کی دہائی کا آخری سال تھا۔ہم دونوں کے دفاتر چندریگر روڈ پر واقع بمبئی ہوٹل میں تھے۔سیڑھیاں چڑھتے اُترتے ، رسمی دُعا سلام سے شروع ہونے والا تعلق کبھی نہ ختم ہونے والی سنگت میں کیسے تبدیل

352748
کوچہ فن و ادب - 40

ارشاد گلابانی کوہم سب اُستاد کہتے تھے۔ارشاد سے اُستاد وہ کیسے ہوا؟کوئی نہیں جانتا۔لیکن اتنا سب کو معلوم ہے کہ
جنگل کا اِک مور تھا وہ بھی
شہر میں آیا ، رقص کیا اور چلا گیا ۔
ارشاد سے پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی کچھ یاد نہیں پڑتا۔شاید یہ اَسی کی دہائی کا آخری سال تھا۔ہم دونوں کے دفاتر چندریگر روڈ پر واقع بمبئی ہوٹل میں تھے۔سیڑھیاں چڑھتے اُترتے ، رسمی دُعا سلام سے شروع ہونے والا تعلق کبھی نہ ختم ہونے والی سنگت میں کیسے تبدیل ہوا ۔ مہ و سال ِ آشنائی پر جمی گرد جھاڑ کر دیکھیں توکچھ تصویریں ارشاد کے قہقہوں کی طرح تازہ اور شگفتہ ہیں اور کچھ بہت دھندلی کہ جن میں ہم نے ایک آدھ دن کے لیے کچھ دوریاں محسوس کیں۔یہ دُوریاںبھی دن کے اوقات کی تھیں ۔شام کے سائے ڈھلتے ہی فاصلے ختم ہونے لگتے اور ہم کسی گوشہ ء عافیت میں ایک ہی میز پر خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیتے ۔پریس کلب سے کہیں باہر جانا ہوتا تو اکثر رات کواسے رات بھر جاگنے والے رنچھوڑ لین تک چھوڑنے کی ذمہ داری دوستوں کی ہوتی ۔رات بہت دیر سے گھر پہنچنے کے باوجود ارشاد کی صبح بہت جلدی ہو جاتی تھی۔صبح سویرے ریڈیوپاکستان کے کسی پروگرام میں شرکت کے بعد وہ اخبار کی رپورٹنگ کے لیے نکل پڑتا ۔دن بھر کی مشقت کو رزقِ حلال میں ڈھالتااور ماتھے سے پسینہ صاف کرتا ہوا پریس کلب کی طرف پیدل چل پڑتا۔
بحث مباحثے کا رسیا ، سیاسی طور پر انتہائی درست ،حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے،بھیڑ چال سے ہٹ کر اپنی چال چلنے اور دلیل کے ساتھ اپنی بات منوانے والا ارشاد ہنستا بھی زیادہ تھا اور روتا بھی بہت تھا۔جس دن بے نظیر کی شہادت ہوئی ،اگلے دن شام کوکارڈ روم کے ایک گوشے میں بیٹھ کر خوب وہ خوب رویا تھا۔آنسوؤں کے دریا تھے کہ بہے جاتے تھے ۔اپنے آپ کو پرسہ دینا کتنا مشکل ہے ۔ ہم ایک دوسرے کو تسلی دینا چاہتے تھے لیکن جیسے ہی آنکھیں چار ہوتیں ،وہ پھر سے دھاڑیں مار کر رونے لگتا ۔ایک دن ہم آپس میں لڑ پڑے تھے۔اسکول میں جیسے دو بچے لڑ پڑے ہوں اور شدیدغصے میں ایک دوسرے کی تختیاں سیاہ کر دیں۔اُس رات وہ دوسرے دوستوں سے بھی ناراض ہو گیا تھا اور پیدل رنچھوڑ لین کی طرف چل پڑا تھا۔یہ اُس کی خاص ادا تھی جب کبھی کسی بات پر ناراض ہو تا ، یہی تقاضا کرتا کہ مجھے گاڑی سے اُتار دو ، میں پید ل چلا جاؤں گا۔دن ہو یا رات ،میلوں پیدل چلنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔جہاں کہیں موسیقی کی محفل ہوتی تواس پر وجدان کی بارش ہونے لگتی اوروہ تھر کے موروں کی طرح ناچنے لگتا تھا۔ایک دن کہیں سے تین روٹیاں اُٹھا لایا۔کہنے لگا یہ اصلی گندم کی ہیں۔کچھ دیر بغل میں دبائے بیٹھا رہا ۔پھر ایک ایک لقمہ توڑ کرہم سب کو دیااور کہا کیسی خوشبو ہے گندم کی ؟
مٹی اور گندم کی خوشبو اس کے خمیر میں گندھی تھی۔لطیف سرکار اور سائیں سچل کے شعر سناتا۔خواجہ غلام فرید کی کافیاں اور دوہڑے بھی اُسے یاد تھے۔رحیم راحت سے فرمائش کر کے مکیش کے گیت سنتا۔دوستوں کے موبائل سے لتا اور نصرت فتح علی کی آوازوں سے لطف اندوز ہوتا اور تاش کھیلتارہتا۔ایک شام شوکت علی کے صاحبزادے محسن عباس کارڈ روم میں اپنے والد کے گائے ہوئے گیتوں کے سربکھیر رہے تھے۔ ہماری اُستادکے ساتھ شکر رنجی چل رہی تھی۔ کچھ دیربعد ارشاد اُٹھااور بڑے بھائی کی طرح گلے لگالیا۔ ہماری لڑائیاں اور ناراضیاں بھی بچوں کی طرح تھیں۔ کبھی لڑ پڑتے تو اگلے ہی پل میں پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے لگتے تھے۔یہی رویہ اس کا دوسرے دوستوں کے ساتھ تھا۔وہ زیادہ دیر کسی سے ناراض نہیں رہ سکتا تھا۔یہی حال رحیم راحت کا تھا وہ بھی روزانہ روٹھتا تھا اور روزانہ مان جاتا تھا۔لیکن یہ کیا ہوا ،رحیم راحت کے بعد ارشاد گلابانی بھی ایسا روٹھا ہے کہ ہم لاکھ منانے کی کوشش کریں ، کبھی واپس نہیں آئے گا۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں