کوچہ فن و ادب - 36

عشرت آفریں نے یہ شعر پہلی بار بزم علم و دانش میں سنایا تھا۔ جہاں ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے ادیب، شاعر ، دانش وراور سیاسی کارکن ہر ہفتے مل بیٹھتے تھے۔ یہ نشستیں رفاع عام سوسائٹی ملیر میں کبھی منصف رضا کے گھر ہوا کرتیں

391269
کوچہ فن و ادب - 36

کپاس چُنتے ہوئے ہا تھ کتنے پیارے لگے
مجھے زمیں سے محبت کے استعارے لگے
عشرت آفریں نے یہ شعر پہلی بار بزم علم و دانش میں سنایا تھا۔ جہاں ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے ادیب، شاعر ، دانش وراور سیاسی کارکن ہر ہفتے مل بیٹھتے تھے۔ یہ نشستیں رفاع عام سوسائٹی ملیر میں کبھی منصف رضا کے گھر ، کبھی اسماعیل یوسف کے ہاں، کبھی زیب، اسرار کی بیٹھک میں اور کبھی ملک اکبر کے ٹائپنگ انسٹی ٹیوٹ میں ہوا کرتی تھیں۔عشرت کی ابتدائی شاعری ہی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ مٹی کی محبت ہی اُن کی فکری امیجری کا نمایاں رنگ ہے۔جو ان کے اسلوب شعر کوایک نیا آہنگ عطا کرتی ہے۔فطرت کے قریب ہونے اور اس کی گتھیوں کو سلجھانے کی جستجو نے عشرت آفریں کو یہ کمال فن ودیعت کر دیا ہے کہ وہ شاعری کوایک نئے لہجے سے روشنا س کرانے لگی ہیں۔
ایوان دوستی میں ایک مشاعرہ تھا۔بھارت سے آئے ہوئے ایک نوجوان شاعرپرویز جعفری نے بھی وہاں اپنا کلام سنایا۔جو کچھ زیادہ متاثر کن نہیں تھا۔بعدازاں پتہ چلا کہ وہ علی سردار جعفری کے بھتیجے ہیں۔اور پھر سننے میں آیا کہ عشرت آفریں اور پرویز کی شادی ہو گئی ہے۔مجھے یقیں کی حد تک گماں تھا کہ عشرت کی شاعری زیادہ دیر اپنی اوریجنیلیٹی بر قرار نہیں رکھ پائے گی۔گویا ہم نے ایک اچھی شاعرہ کو گھر سے رخصت کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری سے الوداع کر دیا ہے۔انہی دنوں میں نے آرمینیا میں آنے والے تبا ہ کن زلزلے پر ایک نظم کہی تھی۔جس میں اس خوش فہمی کا اظہار کیا گیا تھاکہ۔
موت کے دیو کا ہم کو کیا خوف ہے
اپنی سنگت میں جب گوربا چوف ہے
میری یہ خوش فہمی زیادہ دیر برقر ارنہ رہ سکی اور گورباچوف صاحب اپنے ہاتھوں سے روئے زمین پر بسنے والے کروڑوں انسانوں کی فکر، آدرش اور نظریے کی تجہیز وتدفین کا انتظام کرکے رخصت ہوئے۔عشرت آفریں اپنی نئی کتاب کے ساتھ آئی ہیں تو وہ غلط فہمی اور خدشہ بھی باقی نہیں رہاجوان کی شادی کے بعد میرے دل و دماغ میں کلبلانے لگا تھا۔ ایک مشترکہ نظم کے عنوان سے وہ لکھتی ہیں۔
وہ نظم جو میں نے تم پر لکھی۔۔وہ شعر جو میں نے پلکوں سے دل کاغذ پر تحریر کیا۔۔۔وہ نظم جو تم نے مجھ پر لکھی۔۔۔وہ بوند برابر رشتے سے نم مٹی میں پروان چڑھی۔۔وہ نظم ہماری بانہوں میں ۔۔۔۔جب بانہیں ڈال کے ہنستی ہے۔۔۔وہ شعر تمہارے قدموں سے جب قدم ملا کر چلتا ہے۔۔۔میں سوچتی ہوں اس دھرتی پر۔۔۔ہم دونوں جیسا شاعر کوئی اور نہیں۔۔۔۔۔۔
میں اپنی غلط فہمی سے نکل آیا ہوں اوراس خوش گمانی میں شامل ہو گیا ہوں کہ عشرت آفریں کی شاعرانہ اڑان فکر کی ان بلندیوں کو چھونے لگی ہے جہاں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اورنسرین انجم بھٹی کا بسیرا ہے۔عشرت آفریں نے تین عشروں کے دوران صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔سنہری تعزیوں کی پنیوں میں چھپا بچپن ہے ، اک محلہ ہے جہاں رنگین تہواروں کے پیراہن میں انسانی جذبے توازن سے ایک جیسے
موسم میں ٹہرے ہیں۔گہری گہری کالی آنکھوں اور شیشے کی جھلمل اوڑھنی والی سکینہ ماروی ہے۔مائے بوہڑ والی ہے جو کہتی ہے اجی وہ بڑ کا اونچا پیڑ تو میں ہوں۔کبھی لاہور دیکھا ہے۔۔۔میاں والی سے گزرے ہو۔۔۔نہیں دیکھے اگر یہ شہر تو کیا خاک دیکھا تم نے دنیا میں!۔۔۔۔کبھی لاہور سے گزرو تو تھوڑی دیر کو رک کر ۔۔۔۔محلہ بوہڑ والا چوک میں میرا کسی سے نام لے دینا۔۔۔۔۔میاں والی کو جانا ہو ۔۔۔تو واں دیوار پر بیٹھے ہوئے کاگا سے میرے ماں کا اور پیئو کا ۔۔۔ذرا احوال لے لینا۔۔۔یہ چھوٹا سا محلہ کیا تھا اک رنگین دنیا تھی۔۔۔ہمیشہ سردیوں کی رات میں ۔۔۔سوندھی ، سنہری مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کے ٹھیلے تک۔۔۔۔خرد گل خیر کی آواز۔۔۔گلابوں میں بسی وہ ریوڑیاں۔۔۔اور بھوبھل میں دبی میٹھی شکر قندی۔۔۔۔مگر وہ شئے ! ۔۔۔۔۔کہ جس کو ذائقہ کہتے ہیں وہ دراصل تھی تاثیر مٹی کی۔۔۔۔۔۔
یہی تاثیر ہے جس نے عشرت کو اپنا اسیر کر رکھا ہے۔ اور وہ شاعری کے کینوس پر جتنی بھی تصویریں بناتی ہیںان میں مٹی کا رنگ سب سے گہر ا اور نمایاں نظر آتا ہے۔دوسرا رنگ آدرش کا ہے۔جسے عشرت نے اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا ہے۔لیکن اب جو وہ اتنے سفر کے بعداپنی بستی میں آئی ہیں توکہنے پر مجبور ہو گئی ہیں ۔۔۔وہی کردار ہیں سارے۔۔۔وہی میرا محلہ ہے۔۔۔وہی ہیں میرے ہم جولی۔۔ہر اک مانوس چہرہ ہے۔۔۔مگر جو ہے وہ سہما ہے۔۔۔یہ پیڑوں کے بجائے خوف کے سائے میں بیٹھے ہیں۔۔۔فقط آسیب لگتا ہے۔۔دکھائی کچھ نہیں دیتا ۔۔۔لہو میں شور برپا ہے ۔۔سنائی کچھ نہیں دیتا۔۔جو دل پر ہاتھ رکھو تو فقط اتنا ہی کہتا ہے۔۔۔وہ عیسی چوک ہو یا داس منزل کا کوئی مندر۔۔لوہاری گیٹ ہو یا گوٹھ قاسم کی کوئی بستی۔۔باب العلم ہو یا مسجد صدیق اکبر ہو۔۔۔حسین آبا د ہو
یا وہ مری فاروق نگری ہو۔۔۔جہاں بھی گولیاں چلتی ہیںمیرے دل پہ چلتی ہیں۔۔۔ہر اک وہ گھر جہاں ماتم بپا ہے میرا اپنا ہے۔۔۔یہ جتنا خون بھی اب تک بہا ہے میراپنا ہے۔۔۔۔۔
عشرت آفریںایشیا کے غریب ملکوں کے اپنے جیسے ذہین بچوں کو اس دکھ اور اس خوف سے بچانا چاہتی ہیں لیکن آگے ایک خونخوار اژدھے کی طرح منہ کھولے ایک بلیک ہول ہے جو ان کے کرب میں کچھ اور اضافہ کر دیتا ہے۔
پانی کی تقسیم کے پیچھے جلتے کھیت سلگتے گھر
اور کھیتوں کی زرد منڈیروں پر کملاتی دوپہریں
یہ تو میرے خواب نہیں ہیں یہ تو میرا شہر نہیں
کس جانب سے آ نکلی ہیں یہ گہناتی دوپہریں


ٹیگز:

متعللقہ خبریں