عالمی ایجنڈا۔ 140

374002
 عالمی ایجنڈا۔ 140


30 اگست جنگ نجات کے طفر کیساتھ خاتمے کا یوم ہے اور اسے ہر سال ترکی میں پورے جوش و خروش کیساتھ منایا جاتا ہے ۔ یونانیوں کیطرف سے 15 مئی 1919 کو ازمیر پر چڑھائی کیساتھ جنگ نجات کا آغاز ہوا تھا اور 9 ستمبر1922 کو یونانیوں کی ازمیر سے پسپائی کے بعد یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی ۔ 30 اگست 1922 کو یونانیوں کے اناطولیہ پر قبضے کو ختم کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں برطانیہ ،فرانس اور اٹلی کے ترکی کے حصے بخرے کرنے کے گھناؤنے منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا تھا ۔ عمومی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 30 اگست یوم ظفر نے پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والی ترک قومی مملکت کی بنیاد ڈالی تھی ۔یہ جنگ ترکوں ،کردوں، عربوں اور دیگر نسلی گروپوں پر مشتمل اناطولیہ کے مسلمانوں کی آخری جنگ تھی ۔بلاشبہ یہ جنگ 30 اگست کی فوجی کامیابی کیساتھ ساتھ نومبر 1922 سے لیکر جولائی 1923 تک جاری مذاکرات کے بعد ہونے والے لوزان معاہدے سے ختم ہوئی تھی ۔ لوزان معاہدے نے 29 اکتوبر 1923 میں اعلان کردہ جمہوریہ ترکی کی بین الاقوامی سطح پر قانونی بنیاد یں ڈالی تھیں ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
1919سے لیکر 1923تک جاری جنگ نجات میں کامیابی اور اس کے بعد کی پیش رفت کے نتیجے میں جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں آیا ۔ حالات کا تین پہلوؤں کیساتھ جائزہ پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ان کا تعلق فوجی جدوجہد ،سفارتی حکمت عملی اور سیاسی مشن اورہدف سے ہے ۔ ترک سیاستدانوں اور تاریخدانوں کیمطابق جنگ نجات میں فوجی طفر کیطرح مصطفی ٰ کمال اتاترک کی فوجی ،سفارتی اور سیاسی حکمت عملی بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔ ترک فوج نے جنوبی اناطولیہ میں فرانسیسی فوج اوروسطی اور مغربی اناطولیہ اور تھریس کے علاقے میں یونانی فوجیوں کیخلاف جنگ کی تھی۔ اس جنگ نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ترک قوم کو فوجی لحاظ سے شکست نہیں دی جا سکتی لیکن فوجی جنگ میں کامیابی کی بنیاد تشکیل دینے والے سیاسی اور سفارتی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔مصطفی کمال کی دور اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں سیاسی اور سفارتی کوششیں بھی بار آور ثابت ہوئیں۔ مصطفی کمال نے سب سے پہلے یونان کی حمایت کرنے والے برطانیہ اور فرانس کو جنگ کو ختم کروانے پر رضامند کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ان دونوں ممالک کیخلاف سوویت یونین کیساتھ تعاون کیا۔1920 اور 1921 میں سوویت یونین کیساتھ ہونے والے معاہدے برطانیہ اور فرانس کی جارحانہ پالیسی کیخلاف طاقت کا توازن تھے ۔ اس دور میں برطانیہ اور فرانس کی نوآبادیوں میں سے خاصکر ہندوستان کے مسلمانوں کیساتھ روابط کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس صورتحال نے فرانس اور برطانیہ کو بے چین کیا اور وہ یونان کی حمایت سے دستبردار ہونے لگے ۔
ترک جنگ نجات کی فتوحات اور سفارتی ٹیکٹیک کو رخ دینے والا پہلو جنگ کا سیاسی مشن اور
ویژن تھا ۔ سلطنت عثمانیہ کی جگہ جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں آیا اور ترکی کے قیام میں مغرب کی پالیسیوں کے باوجود مغربی بننے کی آئیڈیالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے یونان کےعظیم یونان بننے کے خواب کو زیادہ اہمیت نہ دی ۔
ترکی کی مغرب کی پالیسیوں کے باوجود مغربی بننے کی آئیڈیالوجی کو اولیت دینے میں گہرے تاریخی حقائق موجود ہیں ۔ اس ترجیح کا تعلق عثمانی سلاطین کی 18 ویں صدی تک چلی آنے والی سیاسی اور خارجی پالیسیوں کی جدوجہد سے تھا ۔ عثمانیوں نےمغرب کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ا ستعماریت کا مقابلہ کرنے کے لیے1839 سے لیکر 1878 تک تنظیمات، 1878 سے لیکر 1908 تک پان اسلام ا زم اور 1909 سے لیکر 1919 تک جوان ترک پالیسیوں کو اپنایالیکن یہ تینوں پالیسیاں ان کی خواہش کیمطابق بتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں ۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد مصطفیٰ کمال کی زیر قیادت چوتھی پالیسی یعنی قوم اور مملکت پر عمل درآمد شروع ہوا ۔ یہ فرانسیسی انقلاب کیطرف سے وجود میں لایا جانے والا ماڈل تھا جو 20 ویں صدی میں پوری دنیا پر اثر انداز ہو ا۔جنگ نجات اور بعد میں قائم ہونے والی جمہوریہ ترکی کو اس سیاسی ماحول کیوجہ سے مغربی ممالک کیطرف سے تسلیم کروانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ 30 اگست یوم ظفر کا فوجی پہلووں کیساتھ ساتھ سفارتی اور سیاسی پہلووں کو بھی سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ترکی کی تما م داخلی اور خارجی پالیسیوں نے اس سفارتی اور سیاسی دائرہ کار میں فروغ پایا اور اس کی بنیاد میں ملک میں امن جہاں میں امن کا اصول پنہاں ہے ۔30 اگست یوم ظفر کی تقریبات کے دوران جس فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کا مطلب دشمنوں کو خوفزدہ کرنا اور دوستوں کو امن کی ضمانت دینا ہے ۔ ترکی کی پالیسی فوجی قوت کو صرف عالمی امن اور سلامتی کی ضمانت کے طور پر دیکھنا ہے ۔ترکی نے ہمیشہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے سفارتی اور سیاسی پالیسیوں کو اولیت دینے کی پالیسی کو اپنا رکھا ہے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں