کوچۂ فن و ادب - 34

کسی زمانے میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں کو جہاں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اورسبط حسن نصاب کے طور پر پڑھائے جاتے تھے ، وہیں کراچی میں ہونے والی کون سی ایسی فکری نشست تھی جس میں شاعروں،ادیبوں کی سیاسی جدوجہد کی بات چلے اور میر گل خان نصیر کا ذکر نہ ہو

371763
کوچۂ فن و ادب - 34

کسی زمانے میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں کو جہاںسجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور سبط حسن نصاب کے طور پر پڑھائے جاتے تھے ، وہیں کراچی میں ہونے والی کون سی ایسی فکری نشست تھی جس میں شاعروں ، ادیبوں کی سیاسی جدوجہد کی بات چلے اور میر گل خان نصیر کا ذکر نہ ہو۔خاص طور پر لالہ لال بخش رند اورنورمحمد شیخ، گل خان نصیر کو اتنی محبت سے یاد کرتے کہ اُن کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک میں گل خان نصیر کا دمکتا ہوا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ گل خان نصیرزنداں میں نہ ہوں تو کراچی میں لالہ رند کے مہمان ہوتے تھے اور گل خان کے چاہنے والے وہیں ان سے ملاقاتیں کرتے تھے۔یہی لیاری کا وہ سنہری دور تھا جب فیض احمد فیض عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔فیض صاحب اور گل خان نصیر کے درمیان مہ و سال ِ آشنائی کا آغازلیاری کے انہی گلی کوچوں میں ہوا جہاں اب ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ کی کوئی سبیل باقی نہیں۔
لالہ رند بتایا کرتے تھے کہ فیض صاحب گل خان نصیر کی شاعری کو بہت بلند پایہ قرار دیتے تھے ۔انہوں نے گل خان کی ایک نظم کا اردومیں ترجمہ بھی کیا تھا اور کچھ اور نظموں کی فرمائش بھی کی تھی تاکہ اتنی اچھی نظموں کی وساطت سے غیر بلوچ قارئین بلوچی ادب سے روشناس ہو سکیں۔جواب میں گل خان نصیر نے فیض صاحب کی کتاب ’’سرِ وادی ء سینا‘‘ کی تمام نظموں کا بلوچی میں ترجمہ کر دیالیکن اپنی کوئی نظم فیض صاحب کو ترجمے کے لیے نہیں دی۔گل خان نصیر فیض صاحب کو پھولوں جیسا آدمی کہا کرتے تھے۔شاعرِ عوام حبیب جالب سے بھی ان کی دوستی تھی۔مجاہد بریلوی بتاتے ہیں کہ فہمیدہ ریاض ان سے ملنے کوئٹہ گئی تھیں ۔وہ ان کی نظموں کو اردو اور انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہتی تھیں۔گل خان نصیر بھی اس بات پر خوش تھے اور سیاست سے زیادہ شاعری کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے۔
چاکری، رندی عہد کے نامور شاعر اور عاشق بیورغ کا کہنا ہے کہ بے ہمت مرد نہ شاعری کر سکتا ہے اور نہ ہی عاشقی۔۔۔میر گل خان نصیر اس پیمانے پر پورا اترتے تھے۔ان کی شاعری کا محور بلوچ اور بلوچستان تھا۔ان کی محبوبہ بھی کوئی پری چہرہ خاتون نہیں تھی بلکہ بلوچستان کے دشت و جبل تھے جن سے بلوچوں کا شکوہ جھلکتا ہے۔غوث بخش بزنجو نے میرگل خان نصیر کو ایک بیان دینے کی پاداش میں پارٹی سے نکال دیاتھا۔جس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ غوث بخش بزنجو نے طویل تعلقات کا بھی خیال نہ رکھا۔اس موقع پر انہوں نے جے پرکاش نارائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ کانگریس سے علیحدہ ہوئے تو کسی نے نہرو سے کہا کہ بابوجی چلے گئے ہیں ، اب کیا ہو گا۔نہرو نے کہا وہ اچھے آدمی تھے ۔جب تک ہمارے ساتھ رہے ، اچھائی کرتے رہے۔اب کہیں اور جائیں گے تو وہاں بھی اچھائی ہی کریں گے۔لیکن غوث بخش بزنجو نے ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو نہرو نے جے پرکاش کے ساتھ کیا تھا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب بلوچستان میں برسراقتدار بزنجو ہی کی پارٹی نے سال ِ رواں کو میرگل خان نصیر سے منسوب کرتے ہوئے ان کی صد سالہ تقریبات کا آغاز کیا ہے۔کوئٹہ میںمیرگل خان نصیر انٹرنیشنل سیمینار کا انعقاد ہواجس میں پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے ادیبوں کے ساتھ ساتھ افغانستان، ایران، جاپان، آذر بائیجان، ترکمانستان، یوکرین اور
کینیا کے مندوبین نے بھی شرکت کی اور میر گل خان نصیر کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی اور انہیں ایک ترقی پسند، روشن دماغ سیاسی کارکن اور مزاحمتی شاعری کا سرخیل قرار دیا۔ایک بلوچی شاعرجسے پاکستان کی دیگر زبانیں بولنے والے پوری طرح نہیں جانتے ۔اسے افغانستان میں جانا جاتا ہے۔ایران میں اس کی پہچان ہے۔جاپان، آذربائیجان، ترکمانستان، یوکرین اور کینیا میں اس پر کام ہوا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم مادرِوطن کی مانگ ستاروں سے بھرنے کی خواہش ارکھنے والے گل خان نصیرکو کراچی میں بھی یاد کریں۔لاہور میں بھی ان پر سیمینار ہوں۔اسلام آباد کے سرد موسم میں بھی گل خان کی شعروں کی گرمی محسوس کی جائے اور پشاور میں بھی ان کے اشعار کی گھن گرج سنائی دے۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں