عالمی ایجنڈہ ۔ 135

ترکی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دوبارہ بام عروج پر

313220
عالمی ایجنڈہ ۔ 135

بیس جولائی کو بتیس افراد کی ہلاکت کا موجب بننے والے سوروچ دہشت گرد حملے کے بعد تاریخی نوعیت کی پیش رفت سامنے آئی۔ اولین طور پر اس حملے کے فوراً بعد پی کے کے نے اپنا گھناونا چہرہ ایک بار پھر دکھایا۔ دہشت گرد تنظیم نے ادیامان، جیلان پینار، دیار باقر اور دیگر شہروں میں ترک فوجیوں اور پولیس کو شہید کیا اور شہریوں کی گاڑیوں کا راستہ روکتے ہوئے ان کی گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ اس طرح دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ترکی کے سماجی اور سیاسی ایجنڈے کو بدل کر رکھ دیا۔ سماجی اعتبار سے عوام میں خدشات میں اضافہ ہوا تو سیاسی لحاظ سے آک پارٹی کی
حکومت نے وسیع پیمانے کی فوجی کاروائیاں کیں۔ ترک جنگی طیاروں نے شام میں داعش اور عراق میں PKK کے اہداف پر بمباری کی۔ تقریباً ہر روز جاری رہنے والے آپریشنز میں مذکورہ دونوں دہشت گرد گروہوں کو بھاری جانی نقصان پہنچائے جانے کا اعلان کیا گیا۔ اس پیش کے ساتھ ترکی نے دہشت گردی کے خلاف فوجی سیکورٹی پالیسیوں کو تین چار سال کے وقفے کے بعد دوبارہ فعال بنایا ہے۔
اسی دوران نیٹو کے اتحادی ملکوں کی جانب سے ترکی میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی مذمت کی اور ان کے خلاف ترکی کی فضائی کاروائیوں پر مثبت رد عمل کا مظاہرہ کیا جو کہ ترکی کے اس جنگ میں تنہا نہ ہونے کے اعتبار سے ایک اہم پیش رفت تھی۔ امریکہ سمیت تمام تر اتحادی ملکوں نے یکساں مؤقف پیش کیا۔ بعد میں ترکی نے نیٹو معاہدے کی چوتھی شق کی رو سے نیٹو کونسل کے ہنگامی اجلاس کو منعقد کیے جانے کی اپیل کی جس کو فوراً قبول کر لیا گیا۔بالاخر ترک فوجی آپریشنزسے اقوام متحدہ کو مطلع کیے جانے پر انہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق جائز حیثیت مل گئی۔
سامعین مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گوزین کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
اس پیش رفت کو کسی معمولی اور معمول کی صورتحال سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے بر عکس اسے ترک سیاست، خارجہ پالیسیوں ، مشرق وسطی اور دنیا بھر کے لیے مختلف پہلووں کے حامل خطرات سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ سوروچ کے حملے کے بعد ہم ایک تاریخی موڑ سے گزر رہے ہیں کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ ان پہلووں میں سے تین اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا، پہلو یہ ہے کہ ترکی کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد پالیسیوں میں خاصی وسعت و بلندی آئی ہے۔ ترکی چار سال کے ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بار PKK کے خلاف فضائی کاروائیاں کر رہا ہے تو اس نے بیک وقت دوسری دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف بھی پہلی بار براہ راست جنگ چھیڑی ہے۔ اس نے ایک عظیم سطح کا قدم اٹھاتے ہوئے داعش دہشت گرد عناصر کے خلاف امریکہ کی طرح فضائی کاروائیاں کرنی شروع کر دی ہیں۔ علاوہ ازیں ترکی نے سینکڑوں کی تعداد میں اس تنظیم سے وابستہ اشخاص کو گرفتار بھی کیا ہے۔ ترکی کی مذکورہ دونوں دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ گو کہ اپنے ہدف کو وسعت دینے کے طور پر دکھائی دیتی ہے تو بھی اس کے در اصل ایک نئی حکمت ِ عملی ہونے کا انداز ہ کیا جانا ممکن ہے۔
اس لحاظ سے دوسرے پہلو کو انسداد ِ دہشت گردی کی ایک نئی حکمت ِ عملی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ ترکی تیس سال جاری پی کے کے کے خلاف جدوجہد کو مکمل طور پر اپنے ایجنڈے سے خارج کرتے ہوئے داعش کے خلاف جنگ پر توجہ دے گا۔ جس کی حمایت نیٹو کے اتحادی ملک بھی کر رہے ہیں۔ نیٹو کے ارکان کے جاری کردہ پیغامات ترکی کے عالمی سطح کے اور اولیت کے حامل مسئلے داعش کے خلاف نبرد آزما ہوسکنے کے لیے PKK کے معاملے کو اب ایک طرف چھوڑنے کا مظہر ہیں۔ یہ حکمت عملی ترکی کے نیٹو کے اتحادی ملکوں کے ہمراہ زیادہ تر داعش کے خلاف جنگ میں شرکت کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ یہ صورتحال بیک وقت ترکی کی میثاق کے اندر اور خطے میں کردار کو مزید نمایاں کرنے کا راستہ ہموار کرے گی۔
تیسرا پہلو دوسرے پہلو کو بالائے طاق رکھتے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ آئندہ کے دور میں سلسلہ حل کو اور داعش کے خلاف جنگ کو کس طریقے سے جاری رکھے جانے کے معاملات ترکی کے سامنے ہوں گے۔ ترکی جمہوریت اور ملکی سلامتی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل سلسلہ حل کو ماضی کو جاری نہ رکھ سکنے اور اس کے ایک مختلف سطح حاصل کرنے کا اندازہ کر پا رہا ہے۔ تا ہم اس چیز پر کس طرح عمل درآمد کیے جانے کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی سامنے آ پائے گا۔ دوسری جانب سے ترکی کی داعش کے خلاف جنگ کو کس طریقے سے جار رکھ سکنے کا معاملہ بھی تاحال قطع شکل اختیار نہیں کر سکا۔ آنے والے دنوں میں ان معاملات کے واضح ہونے پر ان پر کوئی تبصرہ کرنا ممکن ہو گا۔
تا ہم یہ حقیقت بھی آشکار ہے کہ مذکورہ دونوں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جدوجہد کے محض فوجی آپریشنز تک محدود نہیں ہو گی یا پھر اسے محدود نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی جڑوں کو صرف فوجی کاروائیاں کرتے ہوئے کاٹ سکنا نا ممکن ہے۔ دہشت گردی کو ایک ایسی دلدل سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو کہ زہریلے کیڑے اور مکھیاں پیدا کرتی ہے۔ دہشت گردی بھی ایک ایسی دلدل ہے جس کے بنیادی اسباب کا قلع قمع کیا بغیر اس سے نجات پانا ممکن نہیں ہو گا۔ اس بنا پر ترکی ، نیٹو کے اتحادیوں اور حتی عالمی طبقے کو داعش کے خلاف کامیاب جدوجہد کے لیے وسیع پیمانے کے سماجی حربوں اور پالیسیوں کا تعین کرنا ہوگا۔ اس لحاظ سے اہم ترین آغاز خاصکر داعش دہشت گردی کی جڑ ہونے والے نظریے کو ناکارہ بنا نے میں پنہاں ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے تحت میرے نزدیک اہم ترین طریقہ کار داعش کے پروپیگنڈا اور اعتقاد کو جھوٹ ثابت کرتے ہوئے بے اثر بنانے میں پوشیدہ ہے۔
اس دائرہ کار میں ابتدائی اقدامات میں سے ایک داعش کے دہشت گردی پھیلانے کے زیر مقصد دین اسلام کو آلہ کار بنائے گئے نظریات اور سوچ کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے تحت دین ِ اسلام کے صحیح پیغام کو بیان کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے اور تمام تر بنی نو انسانوں کو داعش کے اسلام کی نمائندگی نہ کرنے کی حقیقت سے روشناس کروانا لازمی ہے۔ اس نکتے پر ترکی کا کردار اور اہمیت مزید عیاں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ترکی کی طرف سے پیش کردہ دین ِاسلام پر عمل درآمد اور مفاہمت ، اسلام اور مغرب کے درمیان ثالث کا کردار، تاریخی و جیو ثقافتی محلِ وقوع اس کردار میں بار آور ثابت ہو سکتا ہے۔ فطری طور پر داعش اور ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مالیت کافی بلند سطح پر ہو گی۔ ان مالی اخراجات کا پہلے سے تعین کرنا اولیت کا حامل تقاضا ہے۔ تا ہم اس سے بھی اہم چیز ان اخراجات کو مل جل کر سر انجام دیا جانا اور تمام تر اتحادیوں کا اس ضمن میں خدمات ادا کرنا ہے۔



ٹیگز:

متعللقہ خبریں