کوچۂ فن و ادب - 30

یہ ایک بوڑھے ماہی گیر اور بڑی مچھلی کی کہانی ہے۔ ماہی گیر کا سفر کوئی چوراسی دن پہلے شروع ہوتا ہے۔جب وہ اپنی قدیمی کشتی پر ایک جال اور ننھے خدمت گار کے ساتھ گہرے سمندر کی پہنائیوں میں اترتا ہے

311834
کوچۂ فن و ادب - 30

یہ ایک بوڑھے ماہی گیر اور بڑی مچھلی کی کہانی ہے۔ ماہی گیر کا سفر کوئی چوراسی دن پہلے شروع ہوتا ہے۔جب وہ اپنی قدیمی کشتی پر ایک جال اور ننھے خدمت گار کے ساتھ گہرے سمندر کی پہنائیوں میں اترتا ہے۔ پانی میں جال پھینکنے کی مہارت اس کی پیشانی پر ابھری سلوٹوں کی طرح اس کے تجربہ کار ہونے کا پتہ دیتی ہے۔لیکن ہر دن کے اختتام پر ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔راتیں کبھی نہ تعبیر ہونے والے خوابوں کا جوار بھاٹا بن جاتی ہیں لیکن ہر صبح کی پہلی کرن کے ساتھ وہ ایک نئے عزم اور نئے ارادے کے ساتھ عازم سفر ہوجاتا ہے۔
نوجوان کو اس کے والدین بوڑھے ماہی گیر کو چھوڑ کر کوئی اور منافع بخش کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن وہ بوڑھے مالک کی استقامت کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔کبھی کوئی اور مچھلیاں پکڑنے والی کشتی ان کے قریب سے گزرتی ہے تو ان کی مفلوک الحالی کا اندازہ لگا کرروٹی کے چند ٹکڑے ان کی طرف اچھال دیے جاتے ہیں۔
روٹی کے ٹکڑے کھاتے ہوئ ننھا خدمت گار بیس بال کے قصے سنا کر اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔دن گزرتے جاتے ہیں ۔خدمت گار بھی ہمت ہارنے لگتا ہے۔اور کبھی کبھار ہی اب بوڑھے مالک کی مزاج پرسی کو آتا ہے۔لیکن بوڑھا ہے کہ ہمت نہیں ہارتا ۔چوراسی دن گزر جاتے ہیں اورامید وبیم کے اس سفر میں آخر وہ دن بھی آجاتا ہے جب بوڑھے ماہی گیر کی قسمت سمندر کی لہروں سے اٹھکیلیاں کرتے چاند کے عکس کی طرح اچانک چمکنے لگتی ہے۔ایک بڑی مچھلی اس کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ وہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ جال کھینچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن مچھلی اس سے زیادہ زورآور نکلتی ہے۔ دن رات کی اس کھینچا تانی میں تین دن گزر جاتے ہیں ۔بالآخر مچھلی کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں اور بوڑھا مچھیرا اسے کشتی میںلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن سمندر میں خون کی ایک لکیر دیکھ کرشارک مچھلیاں اس کے پیچھے لگ جاتی ہیں۔بوڑھا اپنے چاقو کے وار سے ایک دو کو توپچھاڑ دیتا ہے ۔لیکن اس کے بعد نہ چاقوساتھ دیتا ہے نہ اس کی ہمت۔۔۔وہ نڈھال ہو کر گر جاتا ہے۔اور گہری میٹھی نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
بوڑھے ماہی گیر کے پچاسی دن کے اذیت ناک سفر سے نابلد مچھیرے اگلی صبح جب اس کی کشتی کے گرد جمع ہوتے ہیں تو انہیں ایک بڑی مچھلی کا ڈھانچہ کشتی کے ساتھ لٹکا ہوا ملتا ہے۔بوڑھا نیند سے بیدار ہوتا ہے۔ننھا خدمت گار اسے اخبار اور کافی لا کر دیتا ہے۔اور وعدہ کرتا ہے کہ ایک بار پھرہم ایک ساتھ مچھلی پکڑنے جائیں گے۔بوڑھا گہری نیند کے دوران دیکھے جانے والے خواب کو یاد کرتا ہے جس میں افریقا کے ساحلوں پر شیروں کی ٹولیاں گھوم رہی ہوتی ہیں۔
زندگی اور موت کے مابین کشمکش کی برسوں پرانی یہ کہانی آج کے اس شہزادے کی داستاں سے کتنی مماثلت رکھتی ہے جو کئی سالہ بن باس کے بعد اپنی سلطنت میں واپس آتا ہے تونظام مملکت کو اپنے بن باس سے پہلے کی پوزیشن پر لانے کی ٹھان لیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ محل سرا کے سامنے ایک طرف کوجھکے ہوئے انصاف کے ترازو کو سیدھا کیا جائے۔اپنی ہی طرح قید و بند اور پھر بن باس کاٹنے والے ایک اور شہزادے کو بھی وہ جھکے ہوئے ترازو کی درستگی کے لیے آمادہ کر لیتا ہے۔دونو ں ایک ایسے مقام پرچلے جاتے ہیں جہاں اونچے پربتوں کے درمیان سرسبز و شاداب وادیوں میں سفید بادلوں کے ٹکڑے ان کا استقبال کرتے ہیں اور نیلے آسمان کو گواہ بنا کر عہد کرتے ہیں کہ وہ انصاف کے ترازوکا جھکائو کسی ایک طرف نہیں رہنے دیں گے بلکہ اسے متوازن کر کے دم لیں گے۔ شہزادوں کے اس اعلان پر ناانصافی کی ماری رعایا خوشی کا اظہار کرتی ہے اور جھکے ہوئے ترازو کے گرد والہانہ رقص شروع کر دیتی ہے۔شہزادے بھی اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے دن رات ترازو کو سیدھا کرنے کی تدبیریں سوچتے ہیں۔ایک شہزادہ اٹھے ہوئے پلڑے کے ساتھ وزن بڑھانے کی بات کرتا ہے۔ دوسرا شہزادہ جھکے ہوئے پلڑے کے ساتھ بندھے ہوئے باٹ گرانے کا مشورہ دیتا ہے۔دونوں کی منزل ایک لگتی ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے راستے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
ایک شہزادہ روٹھ جاتا ہے۔رعایا دربار لگنے کے دن جھکے ہوئے ترازوکے گرد جمع ہوتی ہے ۔ترازو ایک ڈھانچے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔روٹھ جانے والا شہزادہ بن باس کے دوران دیکھے جانے والے خواب کو یاد کرتا ہے جس میں ایک جنگل ہوتا ہے جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ دوسراشہزادہ بھی لوٹ آتا ہے اور عہد کرتا ہے کہ انصاف کے جھکے ہوئے ترازو کو سیدھا کرنے کا وعدہ ضرور پوراہو گا۔

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں